• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح کے بعد رضاعت کا علم ہوا

استفتاء

ایک مرد اور عورت کے درمیان  شادی کے تین سال بعد پتا چلا کہ وہ دونوں رضاعی بہن بھائی ہیں جس کے باقاعدہ کثیر گواہ موجود ہیں لیکن  ان لوگوں کو شریعت سے جہالت کی بناء پر حرمت کا علم نہیں تھا ، اب مندرجہ ذیل امور کی وضاحت مطلوب ہے:

۱۔ان دونوں کا نکاح آپس میں فاسد ہے یا باطل اور فریقین کے درمیان تفریق کی کیا صورت ہوگی؟

۲۔ بچے ثابت النسب ہونگے ؟

۳۔ میاں بیوی ایک دوسرے سے وارث ہونگے یانہیں ؟

۴۔ عورت پر عدت بعد ازتفریق لازم ہوگی یا نہیں؟

وضاحت:دونوں بچوں کو ایک ہی سال میں تیسری عورت میں نے دودھ پلایا جبکہ ان دونوں بچوں کی عمردوسال سے کم تھی تقریباً ڈیڑھ سال تھی بچوں کو تیسری عورت نے دودھ اس لیے پلایا کہ ایک کی والدہ بیمار تھی لہذا اس کے والدین کے کہنے پر اس نے دودھ پلایا جبکہ دوسرے بچے کی والدہ  لکڑی لانے گئی تھی اور کافی دیر کردی اس لیے تیسری عورت نے بچہ کی بھوک کو دیکھ کر دودھ پلالیا ذکرکردہ پورے واقعہ پر دودھ پلانے والی اور دونوں کے ماں باپ اور پورے گھر والے سب متفق ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔مذکورہ صورت میں  نکاح فاسد ہے اور میاں بیوی میں تفریق لازمی ہے ، جس کی صورت یہ ہوگی کہ میاں بیوی میں سے کوئی بھی دوسرے سے مکمل علیحدگی اختیار کرکے یوں کہے کہ میں نے اس کو چھوڑدیا اگر یہ  دونوں خود علیحدگی اختیار نہیں کرتے تو حاکم عدالت پر واجب ہے کہ ان کے درمیان تفریق کو نافذ کرے۔

2۔3۔4۔عورت پر تفریق کے بعد عدت واجب ہے اور بچے ثابت النسب ہیں اور بچے اور ان کے والدین ایک دوسرے  کے وارث ہوں گے لیکن میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔

الحاصل أن  المذهب عندنا كما قاله الزيلعي في اللعان أن النكاح لايرتفع بحرمة الرضاع والمصاهرة بل يفسد حتى لو وطئها قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه الأمر أو لم يشتبه وفي الفاسد لا بد من تفريق القاضي أو المتاركة بالقول  في المدخول بها وفي غيرها يكتفي بالمفارقة بالأبدان. (شامی4/ 410)

وفی البزازیة: في الفاسد بعد الدخول لا تكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك. (شامی4/ 279 )

و يثبت لكل واحد منهما و لو بغير محضرمن صاحبه دخل بها أو لا في الأصح بل يجب على القاضي التفريق بينهما إن لم يتفرقا.(شامی4/ 267)

وتجب العدة بعد الوطئ لا الخلوة للطلاق لا للموت من وقت التفريق أو متاركة الزوج.(شامی 4/ 268)

الحاصل أنه قبل التفريق يثبت النسب.(شامی ،ص:270،ج: 4)

وفي الدرر ويستحق الإرث برجم ونكاح صحيح فلا توارث بفاسد وباطل إجماعاً. (شامی 10/ 533) ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved