• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح کےدرست ہونےکی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جس وقت میرا نکاح ہو رہا تھا تو میرے والدین کی موجودگی میں نکاح خواں نے مجھ سے تین دفعہ پوچھا کہ فلاں بن فلاں سے اتنے حق مہر کے عوض تمہیں یہ نکاح قبول ہے؟ تو پہلی دو بار میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور تیسری مرتبہ میں نے کہا ” نہیں”  کیونکہ میرا نکاح کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ،میرا یہ انکار کسی نے نہیں سنا کیوں کہ میں نے یہ بہت آہستہ آواز میں کہا تھا،  اور نکاح خواں  نے میری اجازت کے بغیر مجلس نکاح میں جا کر لڑکے سے ایجاب و قبول کروایا، پھر نکاح کے بعد جب مولانا صاحب مجھ سے دستخط کروانے آئے تو سب لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے تھے اور پھر دستخط کرتے وقت میں نے نکاح کا ارادہ کرلیا اور دستخط بھی میں نے اپنی رضامندی سے کر دیے، کیا میرا نکاح درست ہو گیا ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ

سوال کیوں پوچھا جا رہا ہے؟ کیا کسی کو اس نکاح پر اعتراض ہے؟

جواب وضاحت:

میں نے یہ سوال صرف اپنے دل کی تسلی کے لئے پوچھا ہے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح درست ہو گیا ہے کیونکہ آپ نے جو انکار کیا اس کو کسی نے نہیں سنا اور جو انکار کسی نے نہ سنا ہو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا،جب انکار معتبر نہیں ہے تو مذکورہ صورت میں اجازت لینے پر گویا آپ خاموش رہیں، اور ولی کے وکیل یا اس کے پیغام رساں کے اجازت لینے پر لڑکی کا خاموش رہنا بھی اجازت کی دلیل ہے لہذا مذکورہ صورت میں نکاح درست ہو گیا۔

فتاوی شامی(10/492) میں ہے:

وغير مستبين كالكتابة على الهواء أو الماء وهو بمنزلة كلام غير مسموع ولا يثبت به شيء من الأحكام وإن نوى.

درمختار (4/155) میں ہے:

(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ (فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة(أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو الفضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره، فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن) .

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved