• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح خواں کی موجودگی میں ایک لڑکا اور لڑکی کی گواہی سے نکاح کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے  میں کہ تقریبا دس ماہ قبل ہمارا نکاح ہوا تھا، جس میں میرا شوہر، میں، ایک نکاح خواں اور ہم تینوں کے علاوہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی موجود تھے، نکاح خواں نے نکاح کا خطبہ بھی نہیں پڑھا  تھا اور مہر بھی مقرر نہیں کیا تھا، صرف ایجاب و قبول کروایا تھا کہ ’’میں نے فلانہ بنت فلاں کو تمہارے نکاح میں دیا‘‘ اور میرے شوہر نے تین مرتبہ کہا تھا کہ ’’قبول ہے‘‘ اس کے بعد ہم میاں بیوی کی طرح رہتے رہے، پھر تقریبا  آٹھ یا نو ماہ بعد میرے شوہر نے مجھے فون کال پر تین طلاقیں دے دیں، الفاظ یہ تھے کہ ’’تمہیں طلاق چاہیے؟ میں نے کہا ’’ہاں طلاق چاہیے‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ’’طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے‘‘ اس کے بعد انہوں نے کہیں سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ کے نکاح میں گواہ پورے نہیں تھے اس لیے نکاح صحیح نہیں ہوا تھا لہذا طلاق نہیں ہوئی، آپ راہنمائی فرمائیں کہ ہمارا نکاح درست ہو گیا تھا یا نہیں؟   اور طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کا نکاح درست ہو گیا تھا لہذا تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں لہٰذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: نکاح کی مجلس میں میاں بیوی کے علاوہ چونکہ دو مرد یعنی ایک نکاح خواں اور ایک دوسرا لڑکا موجود تھے لہذا نکاح درست ہو گیا ہے، نیز مہر مقرر کیے بغیر بھی نکاح درست ہو جاتا ہے اور ایسی صورت میں  مہر مثل واجب ہوتا ہے۔

درمختار مع ردالمحتار (102/4) میں ہے:

(ولو زوج بنته البالغة) العاقلة (بمحضر شاهد واحد جاز إن) كانت ابنته (حاضرة) لأنها تجعل عاقدة (، وإلا لا) الأصل أن الآمر متى حضر جعل مباشرا.

(قوله: ولو زوج بنته البالغة العاقلة) كونها بنته غير قيد، فإنها لو وكلت رجلا غيره فكذلك كما في الهندية، وقيد بالبالغة؛ لأنها لو كانت صغيرة لا يكون الولي شاهدا؛ لأن العقد لا يمكن نقله إليها بحر، وبالعاقلة؛ لأن المجنونة كالصغيرة أفاده ط. (قوله: لأنها تجعل عاقدة) ؛ لانتقال عبارة الوكيل إليها، وهي في المجلس فكانت مباشرة ضرورة؛ ولأنه لا يمكن جعلها شاهدة على نفسها.

درمختار مع ردالمحتار (232/4) میں ہے:

(وكذا يجب) مهر المثل (فيما إذا لم يسم) مهرا (أو نفى إن وطئ) الزوج (أو مات عنها.

(قوله فيما إذا لم يسم مهرا) أي لم يسمه تسمية أو سكت عنه نهر

درمختار مع ردالمحتار(4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved