• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نکاح میں شرط لگانا اور پہلےسے موجود اور بعد میں پیداہونے والی اولاد کا وارث بننےکے بارے میں چند سوالات

استفتاء

۱۔مرد 65سال ،بیوی  فوت (صاحب مال)  دوبیٹیاں (شادی شدہ) ایک بیٹا (شادی شدہ) دوبیٹے (غیر شادی شدہ)جوان برسرروزگار

۲۔عورت 50سال ،بیوہ خاوند فوت دوبیٹیاں (شادی شدہ) ایک بیٹا (غیرشادی شدہ)جوان برسر روزگار ۔

مذکورہ بالا مرد اور عورت آپس میں پہلے سے رشتہ دارہیں۔بیوہ عورت مرد کی سالی لگتی ہے ۔ دونوں نکاح کرنا چاہتےہیں۔

۳۔مرد کی طرف سے نکاح کی شرط یہ ہے کہ عورت یہ تحریر کرے ، کہ وہ اور اس کی حقیقی اولاد مرد کی جائیداد میں نہ اس کی زندگی میں کچھ لے سکتی ہے ۔ اور نہ اس کے مرنے کے بعد، مردکی جائیداد میں  صرف مرد کی جائیداد میں صرف مردکے حقیقی اولاد ہی وارث ہے۔

۴۔دونوں کا نکاح ہوجانے کی صورت میں عورت کی حقیقی اولاد جوکہ پہلے خاوند سے تھے ،کیا موجودہ نئے خاوند کے مال میں حصہ دار ہوتی ہے یا نہیں؟

۵۔ نکاح ہوجانے کے بعد کیا عورت کے مال میں جو وہ ساتھ لائے مردکا بھی کوئی حق ہے یا نہیں؟

۶۔کیا نکاح سے پہلے یہ معاہدہ کیا جاسکتاہے کہ جو مال مردکا مرد کاہے، وہ مردکے پاس رہے گا، اس میں عورت کا یا اس کی حقیقی اولاد کا کوئی حق نہیں۔ نہ مردکی زندگی میں نہ اس کے مرنے کے بعد۔ اسی طرح جو مال عورت لائے یا اس کے پاس ہے  وہ عورت کے پاس ہی رہے گا اس میں مرد کا کوئی حق نہیں  نہ مردکی حقیقی اولاد کا۔

۷۔اگر ان دونوں کے نکاح سے نئی اولاد پیداہوجائے تو وراثت کے بارے میں شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

نئی اولاد کی———-              مرد کی پہلی حقیقی اولاد کی                ———–عورت کی پہلی حقیقی اولاد کی

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۳۔ نکاح میں یہ شرط لگانا جائز نہیں۔

۴۔عورت کی پہلی خاوند سے اولاد دوسرے خاوند کی شرعا وارث نہ ہوگی۔

۵۔نکاح کے بعدعورت کی موت واقع ہونے کی صورت میں شوہر عورت کے ایک چوتھائی مال کا شرعا وارث ہوگا۔

۶۔نکاح سے پہلے یہ معاہدہ محض لغو اور بیکار ہے اس لیے کہ نکاح ہوجانے کے بعد مرد کے وفات پانے کی صورت میں عورت اور عورت کے وفات پانے کی صورت میں مرد ،دونوں ایک دوسرے کے شرعا ً وارث ہونگے۔

قال في التنوير وشرحه: وهي ضربان شركة ملك وهي أن يملك متعدد عينا أو دينا بإرث أو بيع أوغيرها بأي سبب كان جبرياًأو اختياريا. وقال الشامي تحت قوله بأي سبب كان هو مفهوم قوله بإرث أو بيع فإن الأول جبري والثاني اختياري. (ص: 460،ج:6).

۷۔نکاح کے بعد اولاد پیدا ہونے کی صورت میں اگر مرد انتقال کرجائے تو مرد کی سابقہ بیوی سے اولاد کی طرح نئی بیوی سے پیدا شدہ اولاد بھی دونوں شرعاً برابر کے وارث ہونگے ، اور اگر عورت فوت ہوجائے تو سابقہ شوہر سے پیدا شدہ اولاد اور موجودہ شوہر سے پیدا شدہ اولاد دونوں شرعاً برابر کے وارث ہونگے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved