• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح میں وکیل بنانے کامسئلہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ میں سوڈان میں رہتی ہوں اور جس شخص سے میں نکاح کرنا چاہتی ہوں وہ اس وقت انگلینڈ میں ہے موجودہ حالات کی وجہ سے ہم دونوں ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے، میں یہ چاہتی ہوں میرا نکاح کراچی میں ہو جہاں میرے بھائی اور میری والدہ موجود ہیں،کیا شرعی طور پر اس کی کوئی ممکنہ صورت ہے؟

2: اگر نکاح ہو جاتا ہے لیکن موجودہ حالات کی وجہ سے میں اپنے شوہر کے پاس نہیں جا سکتی تو کیا میرا نان نفقہ میرے شوہر کے ذمے ہو گا؟

3: میں طلاق یافتہ ہوں اور پہلے شوہر سے میرا ایک بیٹا ہے جس کی عمر تقریبا دس سال ہے، کیا میں اپنے بیٹے کو دوسرے شوہر کے گھر اپنے ساتھ رکھ سکتی ہوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1: مذکورہ صورت میں نکاح  کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ  بیرون ملک موجود  دولہا  پاکستان میں موجود  کسی شخص کو  اپنی طرف سے نکاح قبول کرنے کا وکیل بنا دے، وکیل خواہ خط کے ذریعہ بنائے یا ٹیلی فون کے ذریعے بنائے،اور پھر جب نکاح خواں مجلس نکاح میں  لڑکے کے وکیل سے یوں کہے کہ” میں نے فلاں بنت فلاں کا نکاح اتنے حق مہر کے بدلے فلاں بن فلاں سے کیا، کیا تم نے فلاں بن فلاں کے لئے بطور وکیل اس نکاح کو قبول کیا؟ تو وکیل یوں کہے کہ ” میں نے اپنے موکل فلاں بن فلاں کی طرف سے اس نکاح کو قبول کیا” اور دلہن کے بھائی چونکہ پاکستان میں موجود ہیں اور وہ اس کے ولی ہیں لہذا وہ دلہن سے اجازت لے کر اس کا نکاح کروا دیں ۔

خیرالفتاوی (4/300) میں ہے:

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ کمترین انگلینڈ میں مقیم ہے جو کہ جلد پاکستان نہیں آسکتا اور میری

منگنی ایک لڑکی کے ساتھ پاکستان میں ہوچکی ہے جو کہ اپنے وارثوں پاس ان کی سپردی  میں رہتی ہے ، ہم دونوں کی ابتدائی رسم یعنی منگنی کی رسم تو کی جا چکی اب ہم دونوں حق نکاح (شادی کرنا)چاہتے ہیں میرے گھر والے لڑکی کے وارثوں کے پاس نہیں پہنچ سکتے تاکہ حق نکاح کیا جاوے ایسی صورت میں حق نکاح کا کیا طریقہ ہے تاکہ ہمارے دونوں میں حق نکاح ہو جائے اور لڑکی کو ہم انگلینڈ منگوا سکیں۔

جواب: سائل پاکستان میں کسی ایسے شخص کو اپنا وکیل بنا دے جو لڑکی کے شہر میں رہتا ہو، مہر کی مقدار وغیرہ کا تعین پہلے ہو جاوے، مثلا مقررہ تاریخ پر مجلس نکاح میں لڑکی کا والد وکیل کو کہے کہ میں نے اپنی لڑکی فلانہ کا نکاح اتنے مہر کے بدلے فلاں بن فلاں کے ساتھ کر دیا ہے، وکیل مذکور کہے کہ میں نے یہ نکاح اپنے مؤکل فلاں بن فلاں کے لئے قبول کیا۔بس اس سے نکاح منعقد ہو جائے گا اس کے بعد لڑکی کو خاوند کے پاس بھیجا جاسکتا ہے”۔

بدائع الصنائع (2/487) میں ہے:

 ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل.

درمختار (4/210) میں ہے:

واعلم أنه لا تشترط الشهادة على الوكالة بالنكاح بل على عقد الوكيل، وإنما ينبغي أن يشهد على الوكالة إذا خيف جحد الموكل إياها فتح.

2:  نکاح ہو گیا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تب بھی عورت نان نفقہ کا مطالبہ کر سکتی ہے لیکن اگر مرد نے رخصتی کا مطالبہ کیا پھر بھی رخصتی نہیں ہوئی تو عورت نان نفقہ پانے کی مستحق نہیں – ( ماخوذ از فقہ اسلامی مصنفہ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب)

3: دوسرے شوہر کی اجازت سے اس کے گھر میں بیٹے کو اپنے ساتھ رکھ سکتی ہیں۔

فتاوی شامی (4/324) میں ہے:

(قوله وأهلها) أي له منعهم من السكنى معها في بيته سواء كان ملكا له أو إجارة أو عارية (قوله من غيره) حال من ولدها لا صفة له وإلا لزم حذف الموصول مع بعض الصلة قهستاني، إذ التقدير الكائن من غيره. اهـ ح. وأطلق ولدها فشمل الذي لا يفهم الجماع؛ لأنه لا يلزمه إسكان ولدها في بيته. وفي حاشية الخير الرملي على البحر: له منعها من إرضاعه وتربيته؛ لما في التتارخانية أن للزوج منعها عما يوجب خللا في حقه. وما فيها عن السغناقي ولأنها في الإرضاع والسهر ينقص جمالها وجمالها حقه فله منعها تأمل. 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved