- فتوی نمبر: 34-04
- تاریخ: 20 اگست 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان > جن صورتوں میں نکاح منعقد ہو جاتا ہے
استفتاء
میرا نام زید ولد خالدہے۔ میرا نکاح 2024/12/7 میں پڑھایا گیا جس میں میرے والدین اور لڑکی کے والدین دونوں شریک تھے ،لڑکی کا بھائی بھی موجود تھا اس کے علاوہ اس مجلس میں میرا تایا اور مامو ں بھی موجود تھے۔ قاری صاحب نے گواہان کی موجودگی میں ایجاب و قبول کیا اور حق مہر کی مقدار بھی متعین ہوئی اس کے علاوہ لڑکی بھی اس مجلس میں موجود تھی اور ڈائریکٹ لڑکی سے بھی ایجاب و قبول ہوا لیکن نکاح فارم پر نکاح کا اندراج نہیں ہوا کیونکہ لڑکی کا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا تھا جبکہ لڑکی کی عمر 18 سال سے زیادہ تھی اور ایک سادہ کاغذ پر اس نکاح کو لکھا بھی گیا تھا جس میں میرا نام لڑکی کا نام لکھا گیا اور ہمارے دستخط لیے گئے اس کے علاوہ گواہان کے بھی دستخط لیے گئے۔
اب مسئلہ یہ پیش آ رہا ہے کہ لڑکی والے اس نکاح کو نہیں مان رہے ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ جب قاری صاحب کے پاس نکاح فارم ہی نہیں تھا تو یہ نکاح بھی نہیں ہوا اور وہ لڑکی کو میرے ساتھ رخصت بھی نہیں کر رہے ہیں۔ براہ کرم مجھے فتوی دیں جو میں لڑکی والوں کو دکھا سکوں کہ ہمارا نکاح شرعی طور پر بالکل صحیح ہوا ہے۔
امام مسجد کا مؤقف:
میں نے نکاح پڑھایا ، گواہان کی موجودگی میں ایجاب و قبول بھی ہوا اور ایک کاغذ پر اس نکاح کو لکھا گیا اب وہ کاغذ موجود نہیں جس لڑکی کا نکاح پڑھایا وہ کسی کی ملازم ہے ان کی میڈم کا کہنا ہے کہ نکاح فارم پر نکاح کو نہیں لکھا گیا سرکاری کاروائی نہیں ہوئی اور سرکاری کاروائی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
لڑکی کے والد کا مؤقف:
نکاح کے وقت گواہ بھی موجود تھے ایجاب اور قبول بھی ہوا تھا لیکن نکاح کے دوران دونوں کو کلمہ نہیں پڑھایا گیا اور سرکاری کاروائی بھی نہیں ہوئی، ہم کسی عورت کے ملازم ہیں ہماری میڈم بھی نکاح کے وقت موجود تھیں ان کا کہنا ہے کہ نہ کلمے پڑھائے ہیں اور نہ ہی سرکاری کاروائی ہوئی لہذا اس طرح نکاح نہیں ہوتا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں نکاح صحیح اور درست ہے۔ سوال میں ذکر کردہ وجوہات کے پیش نظر اسے غیر صحیح کہنا درست نہیں کیونکہ شریعت کی نظر میں نکاح کے صحیح ہونے کے لیے نکاح فارم میں اندراج یا لڑکے سے کلمے پڑھوانا ضروری نہیں کیونکہ نکاح فارم میں نکاح کا اندراج ایک قانونی چیز ہے اگر یہ شرعاً بھی ضروری ہوتا تو جس زمانے میں گورنمنٹ کی طرف سے نکاح فارم نہیں تھے تو کیا اس زمانے کے نکاحوں کو غلط کہا جائے گا؟
اسی طرح لڑکے سے کلمہ پڑھوانے کی ضرورت تب ہوتی ہے جب لڑکے کے مسلمان ہونے میں کوئی شک و شبہ ہو۔مذکورہ صورت میں چونکہ لڑکے کے مسلمان ہونے میں شک و شبہے کی کوئی وجہ موجود نہیں لہذا اس سے کلمہ پڑھوانے کی بھی ضرورت نہیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 9) میں ہے:
(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر
(قوله: من أحدهما) أشار إلى أن المتقدم من كلام العاقدين إيجاب سواء كان المتقدم كلام الزوج، أو كلام الزوجة والمتأخر قبول ح عن المنح
وفيه أيضًا: (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين
فتاویٰ محمودیہ (10/603) میں ہے:
سوال: مسمی غلام حیدر کا نکاح جبکہ اس کی عمر 13/14 سال کی تھی ، مسماۃ مریم ولد ستار شیخ کے ساتھ جبکہ اس کی عمر ۱۰، ۱۱ سال کی تھی باجازت والدین ہوگیا تھا۔ نکاح درج رجسٹر زوجین کے نابالغ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوا تھا، اس نکاح پر ۴، ۵ سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔
اب جبکہ مسمی غلام حید را پنے سسر سے لڑکی کی رخصت کے لئے کہتا ہے تو وہ انکار کرتا ہے اور جواب دیتا ہے کہ کوئی نکاح نہیں ہوا، اور اس نے اپنی لڑکی مریم کا نکاح دوسری جگہ کر دیا ہے جبکہ اس کی لڑکی کو طلاق نہیں ہوئی ۔ ایسی حالت میں یہ نکاح ثانی درست ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اور جس مولوی صاحب نے یہ نکاح ثانی پڑھایا ہے ان کے بارے میں شرعی طور پر کیا حکم صادر ہوتا ہے؟
الجواب حامداً ومصلياً:ستار شیخ نے اپنی نابالغہ لڑکی مسماۃ مریم کا نکاح غلام حیدر کے ساتھ گواہوں کے سامنے کر دیا تو وہ شرعاً منعقد اور لازم ہو گیا ، اب اس کے بالغ ہونے پر لڑ کی شوہر کے مکان پر بھیجنا اور اس کے شوہر کا مطالبہ رخصتی پورا کرنا لازم ہے، محض رجسٹر میں درج نہ ہونے کی وجہ سے یہ کہنا درست نہیں کہ نکاح نہیں ہوا تھا ، ایسی حالت میں اگر لڑکی کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کیا جائے گا تو وہ شرعی نکاح نہیں ہوگا بلکہ نکاح کے نام پر حرام کاری ہوگی ، لڑکی بھی معصیت میں مبتلا ہوگی اور جس سے نکاح کیا جائے وہ بھی معصیت میں مبتلا ہوگا، باوجود علم کے جو شخص اب نکاح پڑھائے گا وہ بھی سخت گنہگار ہوگا اور جو لوگ ایسے نکاح میں شرکت کریں گے وہ بھی سخت گنہگار ہوں گے اور قہر خداوندی اس سے جوش میں آئے گی، اس لئے ایسا ہرگز نہ کیا جائے ۔ اگر اس کا والد اس کا نکاح دوسری جگہ کرنا چاہے تو لڑکی کو لازم ہے کہ ہرگز اس نکاح کو قبول و منظور نہ کرے، اس کی ہرگز اجازت نہ دے اور رخصت ہو کر ہرگز اس دوسرے شخص کے پاس نہ جائے ۔
فتاویٰ محمودیہ (10/607) میں ہے:
سوال: مشرقی یوپی کے بعض مقامات پر دولہا اور دولہن کو اکٹھا بٹھا کر نکاح پڑھواتے ہیں، دولہا سے تین مرتبہ ایجاب و قبول کرواتے ہیں اور دولہن سے بھی اسی طرح ایجاب و قبول کرواتے ہیں، اگر دولہن سے ایجاب و قبول نہ کروائیں تو کہتے ہیں کہ نکاح نہیں ہوا، لوگ کہتے ہیں جس طرح طلاق تین دفعہ ہے اسی طرح نکاح میں ایجاب و قبول بھی تین دفعہ ہے۔ اور نکاح سے پہلے کلمہ پڑھانا ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: اس طریقے کی پابندی کرنا کوئی شرعی حکم نہیں مجلس عقد میں دولہن موجود نہ ہو ، اس کی طرف سے اس کا کوئی ولی یا وکیل قاضی وغیرہ ایجاب و قبول کر لے تب بھی درست ہے ۔ ایک دفعہ بھی ایجاب و قبول کافی ہے ۔ طلاق کی کئی قسمیں ہیں، ایک دفعہ دینے سے بھی طلاق ہو جاتی ہے اس کا اور حکم ہے ،تین دفعہ دینے سے بھی ہو جاتی ہے اس کا اور حکم ہے ، نکاح کی یہ قسمیں نہیں، پس طلاق پر اس کو قیاس کرنا غلط ہے۔ کلمہ پڑھوانا بھی ضروری نہیں وہ تو خود پہلے سے ہی مسلمان ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved