• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح وحلالہ کی صورت

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، عدت پوری ہونے پر حلالہ کے لیے لڑکی کا نکاح کیا گیا۔ مسئلہ یہی بتایا گیا تھا کہ ہونے والے شوہر کو لڑکی کا وکیل بنا کر دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کروا لیا جائے۔ لیکن غلطی سے انہیں دو گواہوں میں سے ایک نے جو کہ پیش امام بھی ہے اس نے  ایجاب و قبول کروا دیا، اور خلوت صحیحہ مع دخول صحیح ہو گئی۔ کل تین آدمی مجلس نکاح میں تھے، لڑکی کے والد کو اس کا علم ہے۔ مجلس نکاح کے وقت مہمانوں کے گھر آنے کی بناء پر وہ ان کو لے کر گھر سے باہر چلا گیا، نکاح مسجد سے متصل کمرے میں پڑھایا گیا، لڑکی گھر پر قریب ہی تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ نکاح شوہر اول کے لیے بیوی کو حلال کر دے گا یا نہیں؟

جب کہ پیش امام اس مسئلہ میں مزید تعاون سے انکاری ہے۔ مسئلہ بتلانے والا ساتھی پریشان ہے۔ جناب والا سے گذارش ہے کہ اس مسئلہ کا حل نکال کر بندہ کی پریشانی کو دور کیا جائے، اور آخرت کے مواخذے سے بچایا جائے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ

نکاح کے وقت لڑکی جس گھر میں موجود تھی وہ مجلس نکاح سے کتنے فاصلے پر ہے ؟ کیا لڑکی ایجاب و قبول کے الفاظ سن رہی تھی؟

جواب وضاحت:

لڑکی تقریبا دو کنال کے فاصلے پر ایک گھر میں موجود تھی، لڑکی کو کال کر کے امام صاحب نےاجازت لی کہ فلاں بن فلاں سے آپ کا نکاح کر دیں،آپ کی طرف سے اجازت ہے؟ تو لڑکی نے اجازت دے دی اور پھر کال کاٹ دی گئی،ایجاب و قبول اس کے بعد کیا گیا،لڑکی نے ایجاب و قبول نہیں سنا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح درست نہیں ہوا لہذا مذکورہ عورت سابقہ شوہر کے لئے حلال نہیں ہوئی۔

 

توجیہ:

نکاح کے صحیح ہونے کے لئے مجلس نکاح میں عاقدین کے علاوہ دو گواہوں کا موجود ہونا شرط ہے،چونکہ مذکورہ صورت میں مجلس نکاح میں عاقدین کے علاوہ صرف ایک گواہ موجود تھا کیونکہ کل تین آدمی تھے،ایک امام صاحب،ایک گواہ اور ایک دولہا،لڑکی سے اجازت چونکہ امام صاحب نے لی لہذا لڑکی کے وکیل بھی امام صاحب ہی تھے لہذا مذکورہ صورت میں  نکاح فاسد  ہوا، اور حلالہ کے لئے نکاح صحیح ہونا ضروری ہے، نکاح فاسد سے حلالہ درست نہیں ہوتا،لہذا مذکورہ صورت میں بیوی سابقہ شوہر کے لئے حلال نہیں ہوئی

درمختار مع ردالمحتار (4/102)میں ہے:

(ولو زوج بنته البالغة) العاقلة (بمحضر شاهدواحد جاز إن) كانت ابنته (حاضرة) لأنها تجعل عاقدة (، وإلا لا) الأصل أن الآمر متى حضر جعل مباشرا. وفي الشامية تحته:(قوله: ولو زوج بنته البالغة العاقلة) كونها بنته غير قيد، فإنها لو وكلت رجلا غيره فكذلك كما في الهندية، وقيد بالبالغة؛ لأنها لو كانت صغيرة لا يكون الولي شاهدا؛ لأن العقد لا يمكن نقله إليها بحر، وبالعاقلة؛ لأن المجنونة كالصغيرة أفاده ط. (قوله: لأنها تجعل عاقدة) ؛ لانتقال عبارة الوكيل إليها، وهي في المجلس فكانت مباشرة ضرورة؛ ولأنه لا يمكن جعلها شاهدة على نفسها.

درمختار(4/266) میں ہے:

(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود(بالوطئ)

بدائع الصنائع (2/527)میں ہے:

[فصل النكاح بشاهد واحد] (فصل) : ومنها العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد لقوله: – صلى الله عليه وسلم – «لا نكاح إلا بشهود» وقوله: «لا نكاح إلا بشاهدين»

بدائع الصنائع(3/296) میں ہے:

ومنها أن يكون النكاح الثاني صحيحا حتى لو تزوجت رجلا نكاحا فاسدا ودخل بها لا تحل للأول؛ لأن النكاح الفاسد ليس بنكاح حقيقة، ومطلق النكاح ينصرف إلى ما هو نكاح حقيقة.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved