• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح سے پہلےطلاق کو اپنے فعل کے ساتھ معلق کرنا

استفتاء

ایک آدمی نے طلاق کی قسم اٹھائی کہ "اگر میں دیگر گھر والوں سے علیحدہ نہ ہوا تو میری بیوی کو طلاق ہو” اب وہ نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے ان سے جداہوا  اور 6 ماہ ان سے جدا رہا اس دوران شادی بھی ہوئی۔ اب اگر وہ ان کے ساتھ دوبارہ اکٹھا رہنا چاہے تو طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔

درالافتاء سے فون کے ذریعے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس  نے مندرجہ ذیل بیان دیا:

"یہ قسم میں نے نکاح سے پہلے کھائی تھی اور نیت یہی تھی کہ جس سے نکاح ہوگا اس کو طلاق جس کی وجہ سے میں اب تک گھر والوں سے جدا رہ رہا ہوں”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے دیگر گھر والوں کے ساتھ رہنے سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

توجیہ: تعلیق طلاق سے طلاق واقع ہونے  کے لیے ضروری ہے کہ تعلیق کے وقت عورت نکاح میں ہو یا الفاظ تعلیق میں نکاح کی طرف  نسبت ہو۔مذکورہ صورت میں شوہر نے جب تعلیق کی تھی اس وقت نہ تو عورت نکاح میں تھی اور نہ ہی تعلیق کے الفاظ میں نکاح کی طرف نسبت تھی  نیز اگرچہ شوہر کی نیت ہونے والی بیوی کو طلاق دینے کی تھی لیکن چونکہ الفاظ میں شوہر نے ایسی کوئی بات ذکر نہیں کی تھی اس لیے محض نیت سے طلاق واقع نہ ہوگی۔

بدائع الصنائع(2/37) میں ہے:

وأما الذي يرجع إلى المرأة فمنها الملك أو علقة من علائقه؛ فلا يصح الطلاق إلا في الملك أو في علقة ‌من ‌علائق ‌الملك وهي عدة الطلاق أو مضافا إلى الملك………… ‌وأما ‌التعليق ‌بالملك فنحو أن يقول لأجنبية: إن تزوجتك فأنت طالق، وإنه صحيح عند أصحابنا حتى لو تزوجها وقع الطلاق

اللباب فی شرح الکتاب (3/26) میں ہے:

ولا يصح إضافة الطلاق إلا ‌أن ‌يكون ‌الحالف مالكاً أو يضيفه إلى ملكٍ وإن قال لأجنبيةٍ ” إن دخلت الدار فأنت طالقٌ” ثم تزوجها فدخلت الدار لم تطلق

ہدایہ (1/244) میں ہے:

وإذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح…………………. وهذا بالاتفاق لأن الملك قائم في الحال والظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط فيصح يمينا أو إيقاعا ” ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك ” لأن الجزاء لا بد أن يكون ظاهرا ليكون مخيفا فيتحقق معنى اليمين وهو القوة والظهور بأحد هذين والإضافة إلى سبب الملك بمنزلة الإضافة إليه لأنه ظاهر عند سببه ” فإن قال لأجنبية إن دخلت الدار فأنت طالق ثم تزوجها فدخلت الدار لم تطلق ” لأن الحالف ليس بمالك ولا أضافه إلى الملك أو سببه ولا بد من واحد منهما

شامی (4/574) میں ہے:

فلو قال فلانة بنت فلان التي أتزوجها طالق فتزوجها لم تطلق اهـ أي لأنه ‌لما ‌لغا ‌الوصف بالتزوج بقي قوله فلانة بنت فلان طالق وهي أجنبية ولم توجد الإضافة إلى الملك فلا يقع إذا تزوجها

الدر المختار (5/609) میں ہے:

والأصل أن النية ‌إنما ‌تصح في الملفوظ

الاشباہ والنظائر (ص:51) میں ہے:

‌‌الأصل الثاني من التاسع: وهو أنه لا يشترط مع نية القلب التلفظ في جميع العبادات ……………وخرج عن هذا الأصل مسائل: منها النذر لا تكفي في إيجابه النية بل لا بد من التلفظ به…………………… وأما الطلاق، والعتاق فلا يقعان بالنية بل لا بد من التلفظ

ہندیہ (1/511) میں ہے:

رجل قال: إن فعلت كذا فإمراته طالق وليس له إمرأة فتزوج امراة ثم فعل ذلك لا يحنث في يمينه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved