• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح سے پہلے طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا حکم

استفتاء

مجھے بالغ ہوتے ہی مشت زنی کی عادت پڑ گئی اور ایسی عادت پڑی کہ اس نشہ سے جان چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔اس نشہ سے بیزار ہو کر جب میری منگنی بھی نہیں ہوئی تھی اس وقت طلاق دی۔  طلاق کے الفاظ یہ تھے’’اگر میں نے مشت زنی کی تو ایک دو تین شرطوں کے ساتھ میری بیوی طلاق‘‘یا یوں کہا کہ’’اگر میں نے مشت زنی کی تو میری بیوی ایک دو تین شرطوں پر مومن کی بیٹی طلاق‘‘ان میں سے کسی ایک لفظ کو تین بار دہرایا۔اس کے چار پانچ سال بعد میرا نکاح ہوا ،نکاح میں میں خود شریک ہوا نکاح کو خود قبول کیا نکاح کے دو ماہ بعد مجھے یاد آیا کہ میں نے تو طلاق دی تھی ۔میں نے مسجد کے مولوی صاحب کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ طلاق کا ہےکسی مفتی صاحب سے پوچھو۔مفتی صاحب جب میں نے طلاق دی تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ طلاق کیا ہوتی ہے ،غسل کیسے کرتے ہیں ،شادی کیا ہے،جماع کس جگہ کرنا ہے کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔نکاح کے بعد میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں تو ابھی چھوٹا ہوں لیکن دل نے نہ مانا بلکہ کہا کہ کسی مفتی صاحب سے پوچھتا ہوں ۔میں اللہ کے ڈر سے یہ مسئلہ پوچھ رہا ہوں کہ اب کیا حکم ہے کیا طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح  کرنے سے  کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

توجیہ:تعلیق طلاق کے درست ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تعلیق کے وقت بیوی شوہر کے نکاح میں ہو یا تعلیق میں نکاح کی طرف نسبت ہو۔ مذکورہ صورت میں شوہر نے جب طلاق کو معلق کیا تھا اس  وقت نہ تونکاح ہوا تھا اور نہ ہی  تعلیق کے الفاظ میں شوہر نے نکاح کی طرف نسبت کی تھی اس لیے یہ تعلیق لغو ہے۔

فتاوی عالمگیری(1/ 420)میں ہے:

ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك والإضافة إلى سبب الملك كالتزوج كالإضافة إلى الملك فإن قال لأجنبية: إن دخلت الدار فأنت طالق ثم نكحها فدخلت الدار لم تطلق كذا في الكافي.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved