• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’نکل جا میرے گھر سے‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے شوہر نے غصے اور لڑائی جھگڑے میں مجھے یہ کہا کہ ’’نکل جا میرے گھر سے‘‘ وہ کہتے ہیں میری طلاق دینے کی نیت نہیں تھی، غصے میں کہہ دیا تھا۔ان الفاظ کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا آپ کے شوہر کی ان الفاظ سے کہ ’’نکل جا میرے گھر سے‘‘ طلاق کی نیت نہیں تھی تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، تاہم طلاق کی نیت نہ ہونے پر شوہر کو آپ کے سامنے قسم کھانی ہو گی، اگر شوہر قسم کھانے سے انکار کرے تو آپ اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار کریں گی، کیونکہ مذکورہ جملہ کنایات طلاق کی پہلی قسم میں سے ہے جس سے طلاق کا واقع  ہونا ہر حال میں نیت پر موقوف ہوتا ہے ۔

نوٹ: بائنہ طلاق میں سابقہ نکاح ختم ہو جاتا ہے اور اکٹھے رہنے کے لیےنیا مہر مقرر کر کے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔

درمختارمع ردالمحتار (4/517) میں ہے:

(فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا.

درمختارمع ردالمحتار (4/521) میں ہے:

(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا

و فى الشامية تحته: والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية

درمختارمع ردالمحتار (4/521) میں ہے:

والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved