- فتوی نمبر: 25-344
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
ایک مذہبی پس منظر کے حامل ادارے نے ’’نورانی حفاظتی کڑا‘‘ کے نام سے مرد و عورت دونوں کے لیے ایک کڑا متعارف کرایا ہے جو تانبے کا بنا ہوا ہے۔ اس ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق تانبے کا جسم سے لگنا ہی انتہائی حیرت انگیز فوائد کا حامل ہے۔ اور مذکور ویب سائٹ پر اس کے بہت سے طبی فائدے بتائے گئے ہیں۔
نیز اس کڑے پر بنی اسرائیل کے انبیاء کے دور سے لے کر آج تک کے اولیاء کے آزمودہ روحانی پر اسرار الفاظ ’’اللہ ھو، حط، عط، دو، دو، لو، لو‘‘ کندہ ہیں، جو بہت سی روحانی، جسمانی بیماریوں میں مفید ہیں اور ساتھ ہی یہ الفاظ جادو اور جنات سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہیں۔
جن لوگوں نے کڑا پہنا ہے انہوں نے اسے مفید بتایا ہے:
کیا مذکورہ کڑا پہننا عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے جائز ہے؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جیسے علاج کے لیے بھنگ، افیون وغیرہ شرعی طور پر ممنوع چیزوں کے استعمال کرنے کی گنجائش ہوتی ہے تو اسی طرح جب مذکورہ بالا ’’نورانی حفاظتی کڑا‘‘ علاج کے لیے دیا جا رہا ہے تو اس میں کیا شرعی قباحت ہے؟
عبداللہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہماری تحقیق میں مذکورہ کڑا پہننا جائزنہیں ،نہ مردوں کے لیے اور نہ عورتوں کے لیے ۔
چنانچہ حدیث میں ہے :
مسند احمد (33/204)عن الحسن قال : أخبرني عمران بن حصين ، أن النبي صلى الله عليه وسلم أبصر على عضد رجل حلقة – أراه قال : من صفر – فقال : ” ويحك، ما هذه ؟ ". قال : من الواهنة ، قال : ” أما إنها لا تزيدك إلا وهنا، انبذها عنك، فإنك لو مت وهي عليك، ما أفلحت أبدا "حضرت عمران بن حصين رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ایک شخص کے بازو میں کڑا دیکھا میرا خیال ہے کہ پیتل کا بنا ہوا تھا تو حضور ﷺ نے فرمایا :افسوس ! یہ کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا واھنہ( کندھے کی بیماری) کی وجہ سے پہنا ہے تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو پھینکو ،یہ تو بیماری اور بڑھائے گا ۔ اگر تم اس حالت میں مرے کہ یہ (کڑا ) تمہارے (بازو) میں ہوا تو تم کبھی فلاح نہ پاؤ گے ۔بیہقی کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ:ايسرک ان توکل اليهاکیا تمہیں پسند ہے کہ تم (صحت و تندرستی میں اللہ تعالیٰ کے بجائے) اس (کڑے) کے سپرد کر دیئے جاؤ؟
نوٹ یہ حدیث سندا درست بھی ہے اور مزید کتب حدیث میں بھی ہے۔ چنانچہ مسند احمد کے حاشیہ میں ہے۔«وأخرجه ابن ماجه (3031) ، وابن حبان (6085) ، والطبراني في "الكبير” 18/ (391) من طرق عن مبارك بن فضالة، بهذا الإسناد. ورواية ابن ماجه ليس فيها:” فإنك لو مت..” إلخ، وعند ابن حبان والطبراني:”فإنك إن مت وهي عليك وُكِلتَ إليها”.وأخرجه ابن حبان (6088) ، والطبراني 18/ (348) ، والحكم 4/216،=»والبيهقي 9/350- 351 من طريق أبي عامر صالح بن رستم الخزاز، عن الحسن، عن عمران أنه دخل على رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وفي عضده حلقة من صُفر، فقال: ما هذه؟ قال: من الواهنة. قال: "أيسرُك أن تُوكل إليها؟! انبذها عنك”.وأخرجه بنحوه عبد الرزاق (20344) ، وابن أبي شيبة 8/14، والطبراني 18/ (355) و (414) من طرق عن الحسن عن عمران موقوفاً.تنبیہ(1) حدیث میں اگرچہ پیتل کے کڑے کے بارے میں صراحت آئی ہے لیکن شریعت میں پیتل اور تانبا جدا نہیں ہیں بلکہ ایک ہیں جیسے لوہا اور رانگ ایک ہیں، علیحدہ نہیں ہیں۔حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحبؒ امداد الاحکام(4/358) میں لکھتے ہیں:والنحاس و الصفر نوع واحد و کذا الحديد و الرصاصترجمہ: تانبا اور پیتل ایک نوع ہیں جیسے لوہا اور رانگ ایک نوع ہیں۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ اوجز المسالک(13/73) میں لکھتے ہیں:(من النحاس و الشبه) بفتح الشين المعجمة و الموحدة اعلى النحاس يشبه الذهب يقال له فى الفارسية بريخ و في الهندية پيتل.اوجز المسالک(13/74) میں ہے:(فان کان الصنف منه يشبه الصنف الآخر) و لم يکن بينهما اختلاف واضح و ان اختلفا وصيلة (في الاسم) بان يکون لکل واحد منهما اسم مستقل (مثل الرصاص و الآنک) فانهما متشبهان.(والشبه والصفر) فانهما شديد الشبه.اوجز المسالک(13/75) میں ہے:وإن کان الصنف يشبه الصنف الآخر و إن اختلفا في الاسم و يريد بالتشابه تقارب المنافع مع تقارب الصورة کالآنک و الرصاص زاد ابن حبيب و القزوير فانه جنس واحد في هذا الباب و کذا الشبه و الصفر والنحاس جنس واحد و الحديد لينه و ذکيره جنس واحدتنبیہ(2) عورتوں کے لئے تابنے کا کڑا اگرچہ زیب و زینت کی غرض سے بازو میں پہننا جائز ہے لیکن مذکورہ کڑا نہ تو زیب و زینت کی غرض سے بنایا گیا ہے اور نہ ہی وہ اپنی شکل و صورت کے اعتبار سے زینت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بلکہ مذکورہ کڑے میں مردوں کے ساتھ بھی مشابہت ہے کیونکہ یہ کڑا مردانہ ڈیزائن کا بنا ہوا ہے اور کفار اور فساق کے ساتھ بھی مشابہت ہے کیونکہ اس طرح کا کڑا پہننے کا عام طور پر سکھوں یا اہل تشیع کا شعار ہے ۔
وکی پیڈیا میں ہے:کڑا: اسٹیل یا دھات کی موٹی چوڑی جو قوت کے لیے پہنی جاتی ہے سکھوں کی مذہبی علامت
سکھ مت میں جہاں پگڑی اور داڑھی کو بے حد اہمیت حاصل ہے وہیں تلوار کی طرح کی کرپان نیام میں رکھنا بھی ان کی مذہبی روایات واقدارکاحصہ ہےہرسکھ اپنے ساتھ ہمیشہ کنگھا ،کیس، كڑا ،كچها اور كرپان ضرور رکھتا ہے ۔
سکھوں کے دسویں گرو، گرو گوبند سنگھ نے 1699ء میں تمام سکھوں کو کیش گڑھ کے قریب اکٹھا کیا اورپانچ ککے یا پانچ ککار جنہیں اردو میں پانچ کاف کہتے ہیں سکھوں کو اپنی زندگیوں کا لازمی حصہ بنانے کا حکم دیا جسے سکھ مت ایک مذہبی حکم سمجھ کر استعمال کرتا ہے۔
اور عورتوں کے لیے مردوں کی اور اسی طرح مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے کفار و فساق کی مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
سنن ابو داؤد كتاب اللباس باب في لبس الشهرة(2/1117)طبع بشرٰی رقم الحديث 4031عن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول الله ﷺ من تشبه بقوم فهو منهمحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی ،وہ انہی میں سے ہے ۔
لہذا جب یہ کڑا بطور زیور کے نہیں بلکہ بیماری کی وجہ سے پہنا جاتا ہے اور اس میں مردوں اور کفار و فساق کے ساتھ مشابہت بھی ہے تو مذکورہ حدیث کی وجہ سے عورتوں کو بھی یہ کڑا پہننا ناجائز ہوگا۔
اب رہی یہ بات کہ اگرچہ عام حالات میں یہ کڑا پہننا جائز نہیں تاہم علاج کی غرض سے پہننا جائز ہونا چاہیے جیساکہ خود سوال میں بھی مذکور ہے:
”علاج کے لیے بھنگ ،افیون وغیرہ شرعی طور پر ممنوع چیزوں کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے “
اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ بعض حالات میں علاج کی خاطر ناجائز چیزوں کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے لیکن یہ بات اس وقت ہے جب اس کی تمام شرائط کا لحاظ کرلیا گیا ہو ،شرائط کا لحاظ کیے بغیر استعمال کی اجازت قطعاً نہیں ۔ اور من جملہ شرائط کے ایک یہ ہے کہ جس بیماری کے لیے کسی ناجائز چیز کو استعمال کیا جارہا ہو اس بیماری کی کوئی جائز دوا نہ ہو یا ہو لیکن وہ کارگرنہ ہو اور دوسری شرط یہ ہے کہ اس ناجائز چیز سے شفا کا ملنا یقینی ہو اور تیسری شرط یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں کسی دین دار اور ماہر طبیب نے بتائی ہوں ۔
مریض و معالج کے اسلامی احکام(43) میں ہے:مجبوری میں حرام چیز کا بطور دوا استعمالمسئلہ: کسی حرام چیز کو بطور دوا صرف اسی صورت میں استعمال کرنے کی گنجائش ہے جب کوئی ماہر و حاذق مسلمان پرہیز گار طبیب بتائے کہ بیماری کا علاج صرف اسی حرام چیز سے ممکن ہے اور متبادل حلال کوئی دوسری دوا موجود نہیں۔امداد الاحکام (4/318)میں ہے:تداوی بالمحرم صرف اس وقت جائز ہے جبکہ کوئی طبیب مسلم حاذق یا مسلمان ڈاکٹر حاذق یہ کہہ دے کہ اس مرض کے لئے صرف ایک دوا ہے اس کے قائم مقام کوئی دوا نہیں۔قال فی الهندية : ولو أن مریضا أشار إليه الطبیب بشرب الخمر روی عن جماعة من ائمة بلخ أنه ینظر إن کان یعلم یقینا أنه یصح حل له التناول انتهى یجوز لعلیل شرب البول والدم و اکل المیتة للتداوی اذا اخبره طبیب مسلم ان شفاه فيه ولم یجد من المباح ما یقوم مقامه و إن قال الطبیب یتعجل شفاءک فيه وجهان هل یجوز شرب القلیل من الخمر للتداوی إذا لم یجد شیئًا یقوم مقامه
جبکہ مذکورہ صورت میں ان تینوں باتوں میں سے کوئی بھی بات موجود نہیں ،کیونکہ مذکورہ صورت میں یہ معلوم ہی نہیں کہ مذکورہ کڑا کونسی بیماری کے لیے دیا جارہا ہے کہ جس کی کوئی جائز دوا موجود نہیں اور اس کڑے سے اس بیماری سے شفا یقینی ہے اور ان دونوں باتوں کی بنیاد کونسے دیندار اور ماہر طبیب کی تحقیق پر مبنی ہے ۔
نوٹ: غیر مسلم یا فاسق مسلمان طبیب کی تحقیق کا اس میں دخل نہیں ۔
نیز علاج کے لیے بھی کسی ناجائز چیز کے استعمال کی اجازت صرف اس وقت تک رہتی ہے جب تک بیماری زائل نہ ہو جبکہ مذکورہ صورت میں عموماً جو لوگ یہ کڑا پہنیں گے وہ اسے تعویذ کی طرح مستقل پہنے رکھیں گے ۔
نیز مرض کے ازالے کے لیے ناجائز چیز کا استعمال اور بات ہے اور حفظ ما تقدم کے طور پر ناجائز چیز کا استعمال اور بات ہے ،جبکہ مذکورہ کڑا مرض کے ازالے کے لیے نہیں پہنا جا رہا بلکہ اسے حفظ ما تقدم کے طور پر ایک حفاظتی کڑا سمجھ کر پہنا جارہا ہے ۔جسے لوگ موت تک پہنے رکھیں گے کیونکہ حفاظت کی ضرروت تو آدمی کو موت تک رہتی ہے ۔
ایک اشکال اور اس کا جواب:
اگر یہ کہا جائے کہ اس کڑے میں اصل حفاظتی چیز وہ الفاظ ہیں جو اس کڑے پر درج ہیں یہ کڑا اصل نہیں ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اصل حفاظتی چیز وہ الفاظ ہیں جو اس کڑے پر درج ہیں یہ کڑا اصل نہیں تو پھر کڑے کو ختم کردیا جائے اور مذکورہ الفاظ کا تعویذ بنا کر دیدیاجائے ۔
نیز جو الفاظ اس کڑے پر درج ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کا معنیٰ اور مطلب کچھ معلوم نہیں اور ایسا تعویذ پہننا ویسے ہی جائز نہیں ۔
شامی(9/600) میں ہے:(قوله التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن………… ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به .
باقی یہ کہنا کہ "مذکورہ الفاظ بنی اسرائیل کے انبیاء کے دور سے لے کر آج تک کے اولیا ء کے آزمودہ ہیں ” یہ دعوٰی بلا دلیل ہے ایسا دعوٰی تو ہر کوئی کرسکتا ہے ،بھلا جب بنی اسرائیل کے انبیاء پر نازل شدہ کتب سماوی کے محفوظ رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں تو ان الفاظ کے محفوظ رہنے کی کیا گارنٹی ہے ؟
نیز اس میں عقیدے کی بھی خرابی ہے وہ اس طرح کہ اس کڑے کو نورانی اور اس پر لکھے ہوئے حروف کو روحانی اور پراسرار کہا گیا ہے جس کی وجہ سے عوام اسے ایک نور والی چیز اور روح کا علاج اور اسرار سے بھرپور سمجھیں گے، حالانکہ تعویذ جبکہ وہ شرعی حدود کے اندر بھی ہو صرف ایک جسمانی علاج ہے ، اس تعویذ کا نور سے یا روح سے یا پراسرار ہونے سے کچھ تعلق نہیں ،یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی پیناڈول(Panadol) پہ دم کرکے اسے نورانی ،روحانی اور پراسرار کہہ کر فروخت کرے یا لوگوں کو اس کی ترغیب دے۔
ملفوظات حکیم الامت (8/335) میں ہے:عملیات بھی دوا کی طرح ایک ظاہر تدبیر ہے ۔لیکن فرق یہ ہے کہ عملیات میں فتنہ ہے اور دوا میں فتنہ نہیں ہے ۔وہ فتنہ یہ ہے کہ عامل کی طرف بزرگی کا خیال ہوتا ہے اور طبیب (ڈاکٹر) کی طرف بزرگی کا خیال نہیں ہوتا ۔عوام عملیات کو ظاہر ی تدبیر سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ آسمانی اور ملکوتی چیز سمجھ کر کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ عملیات اور تعویذ گنڈوں کے متعلق عوام کے عقائد نہایت برے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved