• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نارمل غصہ کی حالت میں تین طلاقیں دینا

استفتاء

خاوند کا بیان

میں آفس سے آیا اور سسرال سے بچوں کو ساتھ لیا اور گھر چلے گئے۔ گھر پہنچے تو میرے عزیز کا فون آیا جس سے میری بیوی نے مجھ پر الزام لگایا کہ تمہارا اس سے غلط تعلق ہے جس پر میں نے اسے اپنی صفائی میں حلف اٹھانے کی بات کی مگر وہ مجھ سے کسی قسم کی صفائی لینے پر راضی نہ ہوئی مگر ہماری بات چیت جاری رہی میں نے اسے ہر لحاظ سے سمجھایا  کہ ہم اپنے بڑوں کو بلا کر مسئلہ حل کر لیں گے مگر اس پر بھی ہماری بات طے نہ ہو سکی۔ میں گھر سے باہر چلا گیا تاکہ زیادہ پریشانی نہ ہو۔ میرے جانے پر بیوی کا فون آیا کہ جلدی گھر آؤ میں نے بتایا کہ ٹھہر کر آتا ہوں، 10 منٹ بعد دوسرا فون آیا اور پھر کچھ دیر بعد تیسرا فون آیا جس میں بیوی نے کہا کہ میں گلی میں نکلی ہوں تمہیں دیکھنے کے لیے جس پر مجھے دکھ ہوا اور میں فوری طور پر گھر آگیا۔ آتے ہی پھر ہماری درمیان تکرار شروع ہوا مجھے بہت موشن لگے ہوئے تھے اور میں بحث نہیں کرنا چا رہا تھا میں نے اسے کہا میرا بلڈ پریشر بہت لو ہے اور میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ بعد میں بات کر لیں گے، میں نے تقریباً چار پانچ بار کہا کہ اب میرے منہ سے کچھ غلط الفاظ نکل جائیں گے مگر اسے بات سمجھ نہ آئی جس پر میں نے غصہ کی حالت میں تین بار طلاق کا لفظ استعمال کیا کہ ’’میں نے آپ کو طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی‘‘۔ اس صورت حال میں طلاق ہو گئی یا نہیں؟

وضاحت: غصہ نارمل تھا انتا غصہ نہیں تھا کہ مجھے پتا نہ ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور نہ ہی غصہ میں کوئی خلاف عادت کام کیا، حوش و حواس میں طلاق کے الفاظ استعمال کیے۔

بیوی کا بیان

گھر میں مہمان آئے تھے مجھے انہوں نے میری بہن کے گھر چھوڑا تھا جہاں دو آدمی اور ایک عورت تھی، عورت کا فون ان کو آیا تھا جس کی وجہ سے مجھے ٹینشن ہوئی تھی اور انہوں نے ٹینشن کو غلط سمجھا اور اتنے بڑے فیصلے پر اتر آئے۔ یہ گھر سے دو گھنٹے کے لیے باہر چلے گئے جب میں نے پوچھا تو انہوں نے غصے کا اظہار کیا اور پریشانی بڑھ گئی اور انہوں نے حلف دینا چاہا لیکن میں نے نہ لیا اور اب بات صرف یہ ہے کہ صلح صفائی ہو جائے گھر بس جائے، بچے چھوٹے ہیں ناسمجھ ہیں۔ بہتری اس میں ہے کہ مسئلہ سدھر۔

انہویں موشن لگے وئے تھے مجھے بتایا کہ میں دوائی لینے سٹور پر جا رہا ہوں اور دو منٹ میں واپس آتا ہوں اور ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آئے، اس پر مجھے غصہ آیا اور میں نے تین دفعہ کال کی اور گھر واپس بلایا لیکن یہ دیر تک واپس آئے اس لیے تیسری کال جب کی تو میں نے کہا گلی میں کھڑی ہوں کہاں ہو؟ جب یہ واپس گھر آئے تو تکرار شروع ہو گیا اور اس لیے اتنا بڑا مسئلہ بن گیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ سائل نے طلاق غصہ کی حالت میں دی ہے لیکن غصہ کی کیفیت ایسی نہیں کہ جس میں دی گئی طلاق مؤثر نہ ہوئی ہو۔ لہذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے۔ اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ ہی رجوع کی کوئی گنجائش ہے۔ جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کا یہی مؤقف ہے۔

في رد المحتار (4/ 439):

قلت: و للحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها: أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله و يعلم ما يقول و يقصده، و هذا لا إشكال فيه. الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول و لا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، و الأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اھ ملخصاً من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حىث قال: و يقع طلاق من غضب خلافاً لابن القيم اھ و هذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش. …….. فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش و نحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله و أفعاله الخارجة عن عادته، و كذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته، فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال و الأفعال لا تعتبر أقواله و إن كان يعلمها و يريدها، لأن هذه المعرفة و الإرادة غير معتبر لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

و في بدائع الصنائع (3/ 295):

و أما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك و زوال حل المحلية أيضاً… لقوله عزوجل فإن طلقها فلا تحل له من بعد … إلخ

في رد المحتار (4/ 423):

و ذهب جمهور الصحابة و التابعين و من بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع الثلاث.

………………………………………. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved