- فتوی نمبر: 31-143
- تاریخ: 13 جولائی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > صریح الفاظ سے طلاق کا حکم
استفتاء
میرا نام ****** ہے میں اٹک کی رہائشی ہوں آج سے 18 سال پہلے میرے شوہر (جن کی عمر تقریبا 60سال ہے)نے مجھے تین طلاقیں دیں جن کے الفاظ یہ تھے “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”تین مرتبہ کہا اور اس کے بعد آج سے 12 سال پہلے معمولی سی بات پر تلخ کلامی ہو گئی اس پر انہوں نے دوبارہ اسی طریقے سے تین طلاقیں دی اور اس کے بعد بے شمار مرتبہ تین طلاق دے چکے ہیں،میرے شوہر کو ڈپریشن ہے مگر اتنا زیادہ نہیں ہے کہ انہیں کچھ سمجھ بوجھ نہ ہو بلکہ وہ اپنے سارے کام اچھے طریقے سے کرتے ہیں جیسے کہ مکانوں کا کرایہ لینا اور حساب کتاب کرنا وغیرہ اور ابھی کچھ عرصہ قبل انہوں نے گاڑی چلانا چھوڑا ہے اس سے پہلے وہ گاڑی بھی چلاتے تھے اور سارے کام ٹھیک طریقے سے کرتے ہیں اب میرے لیے کیا حکم ہے جب کہ میں بے سہارا ہوں میرے جوان بچے ہیں بیٹا اور بیٹی جن کی عمر 21 سال کے قریب ہے اور باقی اولاد ابھی چھوٹی ہے اور میرے بھائیوں کی بھی مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ مجھے اپنے ساتھ رکھیں،میں ابھی اپنے شوہر کے گھر اوپر والے پورشن پر رہتی ہوں۔
شوہر کا بیان:
دار الافتاءکے نمبر سے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو شوہر نے مذکورہ بالا واقعے کی تصدیق کی ہے اور شوہر کا کہنا ہے کہ تینوں مرتبہ کے طلاق کے الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں اور مجھے معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کر رہا ہوں اور اس وقت کوئی خلاف عادت فعل سرزد نہیں ہوا۔
نوٹ:شوہر ڈپریشن کا مریض ہے اور ڈپریشن کی دوائی (Sedonil) بھی کھاتا ہےلیکن مستند ڈاکٹر سے معلوم کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ دوائی کے اثرات ایسے نہیں جس سے بندہ اپنے ہوش و حواس میں نہ رہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہیں،اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی صلح کی گنجائش ہے۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں آپ کے شوہر اگرچہ ذہنی مریض ہیں اور انہوں نے غصے میں طلاقیں دیں ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ :”طلاق دیتے وقت مجھے معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور مجھ سے کوئی خلاف عادت فعل بھی سرزد نہیں ہوا ہے ” اور ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، اس لیے مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی صلح کی گنجائش ہے۔
نوٹ:اگر بیوی کے پاس رہنے کی کوئی جگہ اور انتظام نہیں ہے اور فتنے کا خوف بھی نہیں ہے تو پردے کے احکامات کی رعایت کرتے ہوئے بیوی اپنے شوہر کے گھر اوپر والے پورشن میں رہ سکتی ہے ۔
ردالمحتار(4/439) میں ہے:
وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.
الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله……
فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.
بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.
در المختار مع رد المحتار (4/509)میں ہے:
كرر لفظ الطلاق وقع الكل.
(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.
ردالمحتار(3/538) میں ہے:
ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.
(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved