- فتوی نمبر: 11-375
- تاریخ: 20 اپریل 2018
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
علماء کیا فرماتے ہیں کہ زید نے حارث کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ اس کو سعودیہ بلائے گا جس کی شرائط درج ذیل ہیں:
۱۔یہ کہ معاہدے کی مدت تین سال ہے۔
۲۔ شروع میں آدھے پیسے زید اور آدھے حارث دے گا۔
۳۔ سعودیہ پہنچنے پر وہاں کی رہائش کا خرچہ تین سال کے لیے سب زید برداشت کرے گا۔
۴۔ وہاں پہنچنے پر پہلے اقامے کا خرچہ زید برداشت کرے گا جبکہ اگلے دو سال تک جو اقامہ لگے گا اس کا نصف حارث بھی ادا کرے گا۔
۵۔ زید حارث کو نوکری لگوانے کے لیے تیاری بھی کروائے گا اور رہنمائی بھی کرے گا۔
۶۔ کھانے پینے اور روز مرہ کے ذاتی اخراجات (جیسا کہ سم خریدنا، نیٹ کا بل، کپڑے وغیرہ) حارث خود کرے گا۔
۷۔ زید حارث کو وہاں کی اچھی نوکری دلوانے کے لیے اپنے پیسوں سے حارث کو وہاں کی ڈگری دلوائے گا جس کی وجہ سے حارث کی تنخواہ مزید بڑھ جائے گی۔
۸۔ شروع میں حارث کی کوئی بھی نوکری لگے (یعنی ڈگری سے پہلے) اس کی آمدن بھی اور آگے چل کر بھی نصف ہو گی۔
۹۔ وہاں کی ڈگری کی میعاد دو سال تک ہوتی ہے، پہلی دفعہ میں تو ساری رقم زید ہی ادا کرے گا جبکہ دوسری دفعہ میں زید اور حارث آدھی آدھی رقم ادا کریں گے۔
۱۰۔ تیسرے سال حارث زید کے ساتھ معاہدے کے مطابق چلتا رہے گا اور دونوں کے مابین تنخواہ نصف تقسیم ہوتی رہے گی۔
۱۱۔ چوتھے سال حارث معاہدے سے آزاد ہو گا اور ساری تنخواہ خود رکھا کرے گا اور مکمل اپنا وہاں کا خرچ خود برداشت کرے گا۔
۱۲۔ دوران معاہدہ اگر کسی ایمرجنسی کی صورت میں حارث کو گھر پاکستان آنا پڑے تو اس کا خرچہ حارث خود برداشت کرے گا۔
۱۳۔ دو سال بعد اگر حارث گھر پاکستان آنا چاہے تو اس کو ریٹرن ٹکٹ زید دے گا۔
شرعی جواب کا منتظر۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
معاہدے کی مذکورہ صورت درست نہیں۔ زید نے حارث کو نقود اور خدمات و منافع کی صورت میں کچھ دینا ہے اور اس کا عوض تین سال تک تنخواہ کا نصف طے کیا ہے۔ یہ عوض مجہول اور علی الخطر ہے۔ جواز کی صورت یہ ہے کہ نقود بطور قرض فراہم کرے جس پر اضافہ نہیں لے سکے گا اور اس کی واپسی بہر صورت حارث کے ذمے ہو گی۔ اور خدمات و منافع کا متعین عوض طے کرے جس کی ادائیگی بہر طور حارث کے ذمے ہو گی چاہے عملاً وہ تنخواہ سے ادا کرے مگر معاہدے میں ادائیگی تنخواہ کے ساتھ منسلک نہیں ہونی چاہیے
© Copyright 2024, All Rights Reserved