• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نرسنگ کے شعبہ سے متعلق دوسوال

استفتاء

  1. میں نرسنگ کے شعبے سے وابستہ ہوں میری ڈیوٹی آئی سی یو میں ہوتی ہےوہاں پر داخل مریض سیریس حالت میں ہوتے ہیں ہمیں تعلیم کے دوران یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ مریض کی جان بچانے کے لیے ہم نے اپنی بہترین کوشش کرنی ہےلیکن ہم دوران ڈیوٹی ڈاکٹر کی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں اپنی مرضی سے ازخود مریض کے لیے کوئی دوائی تجویز نہیں کر سکتے اور نہ ہی ڈاکٹر کی ہدایات کوردکر سکتے ہیں بعض اوقات ہماری کوشش کے باوجود کوئی مریض فوت ہو جاتا ہے بعد میں ہمیں خیال ہوتا ہے کہ مریض کے فوت ہونے میں ہماری طرف سے کوتاہی تھی جس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔

۱۔.ڈاکٹر نے بعد میں دوران گفتگو اعتراف کیا کہ دوائی اتنی مقدار میں دینا غلط تھا جبکہ ہم نے ڈاکٹر کےحکم پر اتنی مقدار میں دے دی تھی ہمیں اس دوائی کی مقدار کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔

۲۔ہمیں اس دوائی کی اصل مقدار کا علم ہوتا ہے کہ مریض کو کتنی دینی چاہیے لیکن ہم ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کے پابند ہوتے ہیں خصوصاً جبکہ مریض کی حالت انتہائی سیریس ہو۔

۳۔ڈاکٹرکےموقع پر نہ ہونے کی صورت میں ہم از خود مریض کی جان بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں لیکن ایمرجنسی میں ذہن ایک طرف رہتا ہےحالانکہ اگر موقع پر ذہن دوسری طرف چلا جاتا تو مریض کی حالت بگڑنے کی اصل وجہ پر قابو پا لیتے اور یوں مریض کی جان شاید بچ جاتی۔

میرے ذہن میں یہ خیال بار بار آتا ہے کہ ان تینوں صورتوں میں مریض کے فوت ہو جانے سے ہم پر کتنا گناہ آتا ہے ؟

  1. میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمیں ملازمت کے لئے ایکسپیرینس (تجربہ)سرٹیفیکیٹ درکار ہوتا ہےبعض اداروں میں ملازمت کے لیے یہ شرط ہوتی ہے کہ متعلقہ ضلع میں ایکسپیرینس درکار ہے اور بعض ادارے وہاں کام کرنے کے باوجود سرٹیفکیٹ بنا کر نہیں دیتے اس صورتحال میں ہمیں نئی ملازمت کے لیے سرٹیفکیٹ کی شرط پورا کرنے کے لیے کسی اور جگہ سے سرٹیفکیٹ بنوانا پڑتا ہے کیااسلام میں اس کی گنجائش ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)الف:چونکہ مذکورہ صورت میں آپ کودوائی کی اصل مجوزہ مقدار کا علم  ہی نہیں ،اس لیے آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ۔

ب۔مذکورہ صورت میں چونکہ آپ  کو علم ہوتا ہے کہ دوائی کی اصل مقدار کتنی ہے اس لیے ایسی صورت حال میں آپ اپنے سینیئر ڈاکٹر سے رابطہ کریں اگر وہ پھر بھی کہے کہ مذکورہ مقدار میں دوائی دے دو تو پھر ذمہ داری آپ پر نہ ہوگی۔

ج۔آپ اپنے طورپرممکنہ وجوہات کی طرف ذہن لے جانے کی پوری کوشش کریں اوراپنے ساتھ والوں سے بھی مشاورت کریں تاہم پھر بھی کسی پہلو کی طرف ذہن نہ جاسکا تو آپ پر اس کاگناہ نہیں۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے مریض و معالج کے اسلامی احکام صفحہ 331،مؤلفہ حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحبؒ

2۔عام حالات میں یہ صورت اختیار کرنا جائز نہیں تاہم کوئی خاص صورت درپیش ہو تو اس کی تفصیلات لکھ کربھیجیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved