- فتوی نمبر: 27-266
- تاریخ: 17 اگست 2022
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
مفتی صاحب بروکر کا کمیشن لینا جائز ہے؟ جس کی صورت مندرجہ ذیل ہے:
کسی دکان دار نے مجھے کہا ہے کہ آپ شروع میں اسے 1000 روپے دو تو وہ آپ کا نام رجسٹر کرے گا اور یہ ہزار روپیہ ضمانت کے طور پر اس کے پاس جمع ہوں گے پھر میں واٹس ایپ پر اس کی اشیاء کی تشہیر کروں گا تو میرے پاس مشتری کے آرڈر آئیں گے پھر میں ان سے ان کا پتہ لے کر اس دکان دار کو دوں گا تو وہ مشتری کو مبیع ٹی سی ایس کے ذریع بھیج دیں گے اور مجھے ہر مبیع پر 300 روپیہ کمیشن دیں گے اور جب 5 چیزیں میرے ذریعے فروخت ہوجائیں گی تو ضمانت کے 1000 روپے مجھے واپس مل جائیں گے۔
اس پر رہنمائی فرمائیں کہ یہ جائز ہے یا نہیں؟
وضاحت مطلوب ہے:(1) ضمانت کے ہزار روپے وہ دکاندار استعمال بھی کرے گا؟ (2) آگے گاہک کو آپ چیزیں اپنی کہہ کر بیچیں گے یا اسے معلوم ہوگا کہ آپ کمیشن ایجنٹ ہیں؟ (3) گاہک سے رقم وصول کرنے کی ترتیب کیا ہوگی؟
جواب وضاحت: (1) ضمانت کے پیسے دکاندار استعمال نہیں کرے گا ۔(2) میں گاہک کو یہ بتا دیتا ہوں کہ میں بائع اور مشتری کے درمیان بروکر ہوں۔(3) رقم وہ بائع وصول کرتا ہے جیز کیش وغیرہ سے یا کیش آن ڈیلیوری کے ذریعے بھی رقم وصول کی جاتی ہے ۔
نوٹ : سائل سے خود بات بھی ہوئی ہے اس کا کہنا ہے کہ دکاندار نے خود کہا ہے کہ وہ ضمانت کی رقم استعمال نہیں کرے گا، صرف شروع میں اس لیے لیے جاتے ہیں تاکہ بندہ کو دیکھ لیا جائے کہ کام کرنے والا ہے یا نہیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کے لیے کمیشن لے کر کام کرنا جائز ہے ،اور اس ضمانت کی رقم کی حیثیت امانت کی ہے جسے دکاندار کیلیے استعمال کرنا جائز نہیں کیونکہ دکاندار کا اس رقم کو استعمال کرنا یا بروکر کی اجازت سے ہوگا یا بغیر اجازت کے،امانت کی رقم بغیر اجازت استعمال کرنا جائز نہیں اور اجازت سے استعمال کرنا اگرچہ جائز ہے تاہم اس صورت میں امانت کی رقم ایسا قرض بن جائے گی جس کے ساتھ اجارہ(بروکر کا عمل) مشروط یا معروف ہوگا جبکہ حدیث میں قرض اور بیع ( یااجارے) کے معاملے سے منع کیا گیا ہے ۔
المعجم الأوسط للطبرانی (9/ 21)میں ہے:
عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لعتاب بن أسيد: «إني قد بعثتك على أهل الله أهل مكة، فانههم عن بيع ما لم يقبضوا، وعن ربح ما لم يضمنوا، وعن شرطين في شرط، وعن بيع وقرض
الأصل للشيبانی ط قطر (8/ 443) میں ہے:
قلت: أرأيت الرجل تكون عنده الوديعة فيعمل بها فيربح ولم يأذن له صاحبها؟ قال: هو ضامن للوديعة، والربح له يتصدق به، ولا ينبغي له أن يأكله. بلغنا ذلك عن إبراهيم النخعي قلت: أرأيت إن عمل بها بنفسه بإذن صاحبها؟ قال: هي قرض عليه، والربح له حلال.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved