• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

آن لائن پروڈکٹ بیچنا

استفتاء

Amazon Products Selling Via Ads

Amazon کی Products بکوانے کے طریقے جو آج کل لوگ استعمال کر رہے ہیں وہ دو طرح سے ہیں:

1۔ ایک یہ ہے کہ Amazon سے  Products کا لنک لے کر اس کا فیس بک اور گوگل وغیرہ پر ad چلا دیتے ہیں فیس بک

والے ad چلانے کے پیسے لیتے ہیں۔ اس میں Option ہوتی  ہے کہ آپ کس ملک میں Ad چلوانا چاہتے ہیں، کس شہر میں یا پھر کچھ مخصوص لوگوں کو۔ ہم پھر اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی Option سلیکٹ کر لیتے ہیں۔

فیس بک پر Option ہوتی ہے کہ آپ اتنے پیسے دیں گے (1) تو ہم آپ کی Ad اتنے بندوں کو دکھائیں گے یا (2) آپ کو اس پر اتنے کلک لے کر دیں گے۔ مثلاً میں نے Amazon سے ایک سائیکل کا لنک لیا کہ میں اسے بکواؤں گا اس کی Ad فیس بک پر چلا دوں گا اور نیچےAmazon والا لنک دے دوں گا کہ آپ اسے یہاں سے خرید سکتے ہیں۔ فیس بک والوں کو میں نے 5 ڈالر دیے Ad چلانے کے۔ انہوں نے میری Ad 200 بندوں کو دکھائی جس میں سے 7 بندوں نے Product خرید لی اور مجھے 70 ڈالر Amazon سے اس کا کمیشن طے شدہ ریٹ کے مطابق مل گیا۔  کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟

2۔ دوسرا طریقہ ہے کہ بعض لوگ Product کالنک اپنے facebook pages پر اور مختلف Forumپر جا کر شیئر کرتے ہیں۔ اس میں فیس نہیں ادا کرنی پڑتی، بلکہ Comments یا Post پر شیئر کرتے ہیں۔ تو وہاں سے بھی لوگ Product کو خرید لیتے ہیں۔ مثلاً کسی Forum میں کسی ایک ٹاپک کی کمیونٹی میں مثلاً کوئی شخص یہ سوال کرتا ہے کہ مجھے موٹاپا کم کرنے کی کوئی Tip بتائیں، کوئی حل یا دوا بتائیں, تو میں Amazon سے موٹاپا کم کرنے  کی دوائی کا لنک اٹھا کر اس کے سوال کے نیچے کمینٹس میں لکھ دیتا ہوں کہ فلاں دوائی موٹاپا ختم کرنے والی ہے، آپ اس کو استعمال کریں اور ساتھ میں Amazon والا لنک لکھ دیتا ہوں۔ وہ لنک پر جا کر خود اس کے فائدے وغیرہ پڑھ کر اگر مطمئن ہو تو Amazon سے خرید لیتا ہے۔ چونکہ وہ میرے شیئر کیے ہوئے لنک کے ذریعہ خریدتا اس لیے Amazon والے اس پر مجھے کمیشن دیتے ہیں۔

کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے اور اسلام میں یہ حرام میں تو نہیں ؟ کیونکہ میں نے سنا تھا کہ آپ کسی کو مشورہ دے کر فیس نہیں لے سکتے یعنی یہ کہ آپ کسی کو کہیں کہ یہ چیز فلاں جگہ سے خرید لو اور وہ وہاں سے چیز خرید لے اور آپ اس شخص سے کمیشن مانگیں جس کی چیز بکوائی ہے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ آپ نے صرف مشورہ دیا ہے،کوئی محنت نہیں کی۔

نوٹ: فیس بک استعمال کرنے والے عام لوگوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ میری رہنمائی کرنے والا آدمی اپنے فائدے کے لیے کام کر رہا ہے یا بے لوث ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال نامہ میں ذکر کردہ کام کی دو صورتوں میں سے پہلی صورت جائز ہے۔ جبکہ دوسری صورت جائز نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آپ کی حیثیت دلال یعنی بروکر کی ہے کیونکہ آپ خریدار اور بیچنے والے کی ایک دوسرے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور خود سودا نہیں کرتے۔ اس طریقہ پر کام کے صحیح ہونے کی درج ذیل شرائط ہیں:

1۔ خریدار اور بیچنے والے دونوں کو آپ کا دلال یعنی بروکر ہونا معلوم ہو۔

2۔ دلال مال بکوانے کی اجرت رواج کے مطابق بیچنے والے سے یا خریدار سے یا دونوں سے وصول کر سکتا ہے اور اجرت کا مستحق مال فروخت ہو جانے کے بعد بنتا ہے۔

3۔ دلال کی اجرت متعین کرنا ضروری ہے اگرچہ فی صد کے حساب میں ہو۔

یہ تینوں شرائط کام کے لیے ذکر کردہ پہلے طریقہ میں تو پائی جا رہی ہیں لیکن دوسرے طریقہ میں پہلی شرط مفقود ہے کیونکہ[1] آدمی ہمدردی کی بنیاد پر تعاون اور مشورہ طلب کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اس کی بے لوث رہنمائی کرے گا جبکہ بروکر دلال اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتا ہے اوراس کے کام میں بے لوث رہنمائی نہیں ہوتی۔ اس طرح سے رہنمائی لینے والے فریق کو دھوکہ ہوتا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ آپ کمیشن میں اپنا اشتہار لگا دیں یا کسی بھی طریقہ سے اپنی حیثیت کو واضح کر دیں تاکہ دھوکہ نہ رہے اور کام بھی درست ہو جائے۔

في رد المحتار (8/ 514):

قوله: (السمسار) هو المتوسط بين البائع و المشتري بأجر من غير أن يسأجر.

و فيه أيضاً (9/ 107):

وقال في الخانية: و في الدلالة و السمسار يجب أجر المثل و ما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذلك حرام عليهم و في الحاوي سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال أرجو أنه لا بأس به و إن كان في الأصل فاسداً لكثرة التعامل.

و فيه أيضاً (9/ 109):

و لا يستحق المشترك الأجر حتى يعمل كالقصار و نحوه كفتال و حمال و دلال و ملاح.

و فيه أيضاً (7/ 93):

و أما الدلالة فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع و إن سعى بينهما و باع المالك بنفسه يعتبر العرف. و في الشامية: قوله (يعتبر العرف) فتجب الأجرة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف. جامع الفصولين.

و في الترمذي (1/ 245)، و مسلم (1/ 70):

و قال النبي صلى الله عليه و سلم: من غشنا فليس منا. ……… فقط و الله تعالى أعلم

[1] ۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کی تجویز

نظر ثانی کریں، اس صورت میں کمیشن Amazone دیتا ہے، اس میں کچھ تردد کی بات نہیں ہے۔

جواب:

اس صورت میں کمیشن اگرچہ ایمازون دیتا ہے، مگر مشتری کو اس کا علم نہیں کہ میری رہنمائی کرنے والا راہنمائی کے بدلے کچھ حاصل کر رہا ہے، وہ دلال کو بے لوث راہنما سمجھتا ہے۔

ہمارے خیال میں یہ وہی صورت ہے جسے آپ نے آڑھتیوں والے رسالے میں: مکینک کی طرف سے گاہک کو پرزہ دلوانے والی صورت کے تحت ذکر کیا ہے، اور اسے ناجائز کہا ہے۔

حضرت ڈاکٹر صاحب کی طرف سے جواب:

شاید دونوں میں فرق یہ ہو کہ نیٹ پر جب  Amazone لنک دیتا ہے تو سائل کو اندازہ ہو جاتا ہو کہ مجیب Amazone وغیرہ کے لیے کام کر رہا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved