• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

آرڈر کنفرم کرنے والے ملازم کا اضافی ٹائم لگانا

استفتاء

پی کمپنی سینٹری کا سامان بناتی ہے اور ڈیلرز کے ذریعے فروخت کرتی ہے۔ پی کمپنی میںگاہک سے آرڈر وصول کرنے کیلئے تین ملازمین رکھے گئے ہیں جو مختلف گاہکوں سے فون وغیرہ پر آرڈرز وصول کرکے اپنے پاس نوٹ کرتے ہیں ۔ پھر ان کے اوپر ایک اور ملازم ہے جس کو یہ حضرات گاہکوں کے آرڈر بھیجتے ہیں یہ ملازم ان آرڈرز کو چیک کرتا ہے پھر کنفرم کرکے آگے ویئر ہائوس والوں کو بھیج دیتاہے جس کے مطابق ویئر ہائوس والے متعلقہ کسٹمر کو سامان بھیج دیتے ہیں۔

ان ملازمین کا تعلق سپلائی چین سے ہے اسلئے ان کے اوقاتِ کار دیگر ملازمین سے مختلف ہیں۔ چونکہ مارکیٹ میں عموماً لوگ صبح کو آرڈر نہیں دیتے بلکہ شام کو جب دوکان بند کرنے لگتے ہیں تو اس وقت وہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں کیا چیز چاہئے پھر وہ فون کے ذریعہ پی کمپنی کو آرڈر لکھواتے ہیں۔ چنانچہ آرڈر وصول کرنے والے ملازمین کے اوقاتِ کار اس طرح ترتیب دیئے گئے ہیںکہ اگرکسٹمر کا شام 7بجے تک بھی آرڈر آجائے تو وہ وصول ہوجائے لیکن ان میں سے کسی ملازم سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ ٹائم نہیں لیا جاتا۔ البتہ جو ملازم آرڈر کنفرم کرتا ہے اس کا ٹائم صبح دس بجے سے شروع ہوتا ہے لیکن اس کا جانے کا ٹائم طے نہیں ہے۔ کمپنی کی طرف سے اسے پابند کیا گیا ہے کہ آپ کو نمازِ عصر تک جتنے آرڈر موصول ہوں وہ کنفرم کرکے ویئر ہائوس والوں کی بھیج دیں، اس میں بعض دفعہ ایک گھنٹہ یا اس سے زیادہ بھی لگ سکتا ہے۔ اسے یہ کہا گیا ہے کہ آپ پانچ بجے سے پہلے نہیں جا سکتے۔ اس کے بعد اگر کوئی کام نہ ہو تو جاسکتے ہیں لیکن اگر پانچ بجے کے بعد بھی کام ہو تو اسے پوراکرنا ضروری ہے ایسی صورتحال میں اسے سات بجے تک بھی رکنا پڑجاتا ہے ۔ تاہم اس کا الگ سے کوئی معاوضہ نہیں دیاجاتا۔

-1  مذکورہ صورت میں آرڈر کنفرم کرنے والے ملازم سے اضافی أوقات میں کام کروانے کا کیا حکم ہے ؟

-2 اگرکمپنی کی طرف سے کسی ملازم کو8گھنٹے سے زیادہ وقت لینے پر آمادہ کرلیا جائے اور اس کا ڈیوٹی ٹائم ہی مثلاً ۹ گھنٹے مقرر کیا جائے اور اس کی وجہ سے اس کی تنخواہ کچھ زیادہ مقرر کی جائے تو کیا شرعاً اس کی گنجائش ہوگی یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

2-1 ملازم سے اوقات کار (Duty Time) (یعنی 8 گھنٹے) کے علاوہ کام کروانا جائز ہے تاہم اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ (1) ملازم کی رضا مندی سے ہو۔ (2) اضافی اوقات کا معاوضہ حکومتی قانون کے مطابق ہو (یعنی اوقات کار کے معاوضے سے دو گناہ ہو۔

(۱)  (صحيح مسلم باب وجوب طاعة الامراء  في غير معصية حدث ۴۷۶۳) طبع دارالسلام)

عن ابن عمر عن النبي ﷺ أنه قال ’’علي المر إلمسلم السمع والطاعة، فيما أحبّ و کره إلّا أن يؤمر بمعصية، فإن أمر بمعصية فلاسمع و لاطاعة۔

(۲)         و في شرح المجلة للاتاسي: (المادة ۴۵۱، ۴۵۰، ص ۱/۵۳۲)

يشترط ان تکون الاجرة معلوماً، بشترط في الاجارة ان تکون المنفعة معلومة بوج يکون مانعاللمنازعة المنفعة تکون معلوم، ببيان مدة الاجارة في امتالي الدار والحانوت۔

(۳)         وفي الصحيح الخباري (ج۲، حديث ۲۱۱۴، کتاب البيوع، باب اثم من باع حرًا۔

عن اسماعيل بن امية عن سعيد عن ابي هريرة عن النبيؐ قال: قال الله: ثلاثه اناخصمهم يوم القيامة رجل اعطي بي ثم غذرورجل باع حرا و اکل ثمنه واجل استاجر اجيرًا فاستو في منه ولم يعط اجزه۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved