• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اوور ٹائم

استفتاء

RL نیوٹراسوٹیکل اور دیسی ادویات بنانے والی مینوفیکچرر (Manufacturer) لائسنس یافتہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے۔RLکمپنی اپنی ادویات بنا کر ملک کے مختلف شہروں میں اپنے ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے فروخت کرتی ہے ۔RL میں 18ملازمین مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں۔

RL کی طرف سے ملازمین کو اوورٹائم کے بارے میں پہلے سے ہی بتا دیا جاتا ہے کہ اگر کام زیادہ ہوا تو اوورٹائم لگاناپڑے گا،البتہ اوورٹائم کی پالیسی کو ملازمین کی تنخواہ کے حساب سے طے کیا گیا ہے مثلاً ایک ملازم کی تنخواہ ماہانہ 20ہزار روپے ہے تو اس کی ایک دن کی تنخواہ 800 روپے اور ایک گھنٹے کے 96 روپے بنتی ہے، لہٰذ ایک گھنٹہ اوور ٹائم کے اسے 96 روپے دیے جاتے ہیں۔

کیا شریعت کی روسے مذکورہ بالا طریقہ کار درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ملازمین سے اوور ٹائم لگوانے میں دو باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

-1            انہیں اوور ٹائم لگانے پر مجبور نہ کیا جائے بلکہ جو ملازم اپنی خوشی سے اوور ٹائم لگائے اسی سے لگوایا جائے۔

-2            اوور ٹائم کی تنخواہ حکومتی ضابطے کے مطابق دی جائے۔ ہماری معلومات کے مطابق حکومتی قوانین کے مطابق ملازمین کے اوور ٹائم کی تنخواہ دگنی ہوتی ہے لہٰذا اوور ٹائم کے بارے میں آپ کا مذکورہ طریقہ جائز نہیں۔

(۱)            سورۃ النساء (پارہ۵، آیت۵۹) میں ہے:

يا أَيها الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّه وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيء ٍ فَرُدُّوه إِلَي اللَّه وَالرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّه وَالْيوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَيرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا۔

(۲)           بدائع الصنائع (۷/۹۹) میں ہے:

قال عليه الصلاة والسلام اسمعوا وأطيعواولو أمر عليکم عبد حبشي أجدع ما حکم فيکم بکتاب الله تعالي ولأنه نائب الإمام، وطاعة الإمام لازمة کذا طاعته؛ لأنها طاعة الإمام، إلا أن يأمرهم بمعصية فلا تجوز طاعتهم إياه فيها۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط: واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved