• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پانچ سالوں کی رہ جانے والی زکوۃ کی ادائیگی کا حکم

استفتاء

ایک مسئلہ درپیش ہے جس کا جواب  تحریری شکل میں مدلل چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ:

شادی کے  بعد  پہلے سال ساڑھے سات تولے سونا کی مقدار  موجود تھی اور ایک لاکھ پچاس ہزار  قرض تھا۔ موجودہ صورت  میں تین سال زکوۃ ادا نہ کی جاسکی، اور اس کے بعد  مزید دوسال گزرے ہیں ، ان دو سالوں میں پانچ تولے سونا باقی رہ گیا ہے اور اس کے علاوہ  80 ہزار روپیہ نقدی ہے جو تقریباً  چھ ماہ سے ہے اس سے پہلے موجود نہیں تھا۔

خلاصہ کلام  یہ کہ کل پانچ سال کا  عرصہ گزرا پہلے تین سال  سونا کی مقدار  ساڑھے سات تولہ تھی جبکہ ایک لاکھ اسی ہزار قرض تھا اور بعد  کے دو سالوں میں پانچ تولے سونا اور اسی ہزار  روپیہ جو چھ ماہ سے نقد کی صورت میں موجود ہے، اب اگر وہ زکوۃ ادا کرے  تو زکوۃ کی ادائیگی  کی کیا صورت ہوگی؟ نیز یہ بھی بتادیں کہ چار سال سائلہ نے قربانی  بھی نہیں کی  تو قربانی کی کیا صورت ہوگی؟

وضاحت مطلوب ہے: (1) نقد رقم تھی یا نہیں ؟  اور تھی تو  کتنی تھی؟ (2) قرض کس وجہ سے تھا؟

جواب وضاحت: (1) سائلہ کے  پاس اسی ہزار  رقم موجود تھی(2) قرض سائلہ پر نہیں  بلکہ سائلہ کے شوہر پر تھا۔ وہ کسی دوسرے ملک کام کے سلسلے میں کسی سے ادھار لیے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں گزشتہ سالوں کی زکوۃ سونے کی موجودہ مالیت کے اعتبار  سے ادا  کرنا   ہوگی، البتہ اگر زکوۃ کی رقم  زیادہ  بنتی  ہو اور اس کی ادائیگی  مشکل  ہو تو  سونے کی  سابقہ ہر سال کی قیمت  کے لحاظ سے بھی  زلوۃ ادا کرسکتے ہیں،  کیونکہ  جب زکوۃ ادا نہ کی جائے  تو وہ ذمہ میں رہتی ہے۔ لہذا گزشتہ سالوں  کی زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے، زکوۃ ادا کرنے کی صورت یہ ہوگی:

پہلے سال جتنا سونا ملکیت  میں تھا  اس کی     پہلے سال کی زکوۃ  ادا کی جائے گی یعنی کل مالیت کا  اڑھائی فیصد،  پھر  دوسرے سال  کی زکوۃ  کا حساب کرتے وقت پچھلے سال کی زکوۃ کی رقم  جو اڑھائی فیصد  کے اعتبار سے بنی تھی  منہا کر کے  باقی رقم کی اڑھائی فیصد  زکوۃ  ادا کریں گے، پھر تیسرے سال  میں پچھلے دو  سالوں کی زکوۃ کو منہا کر کے باقی  رقم کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔

توجیہ: سونے پر زکوۃ کے لیے  ساڑھے  سات تولہ  سونا ہونا ضروری ہے، لیکن اس وقت  کہ جب صرف  سونا ہو، چاندی یا نقدی بالکل نہ ہو اور  اگر سونا  ساڑھے سات تولے  سے کم ہو اور پاس کچھ رقم  (چاہے ایک روپیہ    بھی) ہو یا تھوڑی سی چاندی  ہو تو پھر  ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت  کا اعتبار  ہوگا، لہذا  اگر سونا اور پیسے  مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت  کو پہنچ جائیں  تو پھر زکوۃ  واجب ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں پہلے  سال ساڑھے سات  تولہ سونا موجود تھا تو  اس پر زکوۃ اڑھائی فیصد  واجب ہوئی، بعد کے سالوں میں اگرچہ  سونا ساڑھے سات تولے سے کم ہے لیکن  کچھ رقم چونکہ  ہر  شخص  کے پاس  موجود ہوتی ہے، لہذا بعد کے سالوں  کی زکوۃ  سونے کی مالیت  اور اس رقم کو ملا چونکہ  چاندی  کے نصاب  کو پہنچ  جاتا ہے اس لیے اس کی زکوۃ  اڑھائی فیصد ادا کی جائے گی۔

نوٹ: چونکہ ایک لاکھ پچاس ہزار کا قرض شوہر کے ذمے تھا، اس لیے مذکورہ صورت میں  اس کو منہا  نہیں کیا جائے گا ، نہ پہلے سالوں سے اور نہ بعد کے سالوں سے۔

2۔ مذکورہ صورت میں  عورت پر  قربانی  بھی واجب ہے لہذا  آئندہ   جب تک یہ سونا ہے قربانی  کرنا ضروری ہے اور پچھلے جتنے سال قربانی نہیں  کی تو ہر سال کی قربانی  کے بدلے  ایک بکرے یا  بڑے جانور  میں ایک حصہ  کی قیمت  کسی  مستحق ِ زکوۃ    لوگوں  کو دینا ضروری ہے۔

حاشیۃ الطحطاوی(1/716) میں ہے:

‌ويتراخى ‌وجوب ‌الأداء إلى أن يقبض أربعين درهما ففيها درهم لأن ما دون الخمس من النصاب عفو لا زكاة فيه وكذا فيما زاد بحسابه

(قوله) “ففيها درهم” هذا إنما يظهر إذا كان الماضي عاما واحدا

دررالحکام شرح غررالاحکام(1/181) میں ہے:

والخلاف في ‌زكاة ‌المال ‌فتعتبر القيمة وقت الأداء في زكاة المال على قولهما وهو الأظهر وقال أبو حنيفة يوم الوجوب كما في البرهان وقال الكمال والخلاف مبني على أن الواجب عندهما جزء من العين وله ولاية منعها إلى القيمة فيعتبر يوم المنع كما في منع رد الوديعة وعنده، الواجب أحدهما ابتداء ولذا يجبر المصدق على قبولها اهـ

بدائع الصنائع(2/7) میں ہے:

وبيان ذلك أنه ‌إذا ‌كان ‌لرجل ‌مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة

فتاوی ہندیہ (1/ 179):

“ولو ضم أحد النصابين إلى الأخرى حتى يؤدي كله من الذهب أو من الفضة لا بأس به، لكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء قدراً ورواجاً”. 

فتاوی شامی(6/320) میں ہے:

(ولو) (‌تركت ‌التضحية ومضت أيامها) (تصدق بها حية

وفي الشامية: (قوله ولو ‌تركت ‌التضحية إلخ) شروع في بيان قضاء الأضحية إذا فاتت عن وقتها فإنها مضمونة بالقضاء في الجملة كما في البدائع

(قوله ومضت أيامها إلخ) قيد به لما في النهاية: إذا وجبت بإيجابه صريحا أو بالشراء لها، فإن تصدق بعينها في أيامها فعليه مثلها مكانها، لأن الواجب عليه الإراقة وإنما ينتقل إلى الصدقة إذا وقع اليأس عن التضحية بمضي أيامها، وإن لم يشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها، لأن الإراقة إنما عرفت قربة في زمان مخصوص ولا تجزيه الصدقة الأولى عما يلزمه بعد لأنها قبل سبب الوجوب اهـ (قوله تصدق بها حية) لوقوع اليأس عن التقرب بالإراقة، وإن تصدق بقيمتها أجزأه أيضا لأن الواجب هنا التصدق بعينها وهذا مثله فيما هو المقصود اهـ ذخيرة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved