- فتوی نمبر: 17-288
- تاریخ: 18 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سلام مسنون کے بعد عرض یہ ہے کہ زید عمرو کی دکان پر گیا کہ تو مجھے پانچ ہزار روپے کا چینج دیدیں تو عمرونے چینج دے دیا ،زیدنے چینج لیا اور جلدی کی وجہ سے پانچ ہزار کا نوٹ نہیں دیا اور چلا گیا۔
بعد میں عمرونے اپنے گلہ کو چیک کیا تو اس میں وہ نوٹ نہیں تھا تو اس نے زید کو فون کیا اور صورت حال بتائی ،تو اب صورت یہ ہے کہ اس بات پر نزاع ہے،عمرو کہتا ہے کہ زید نے پانچ ہزار کا نوٹ نہیں دیا اور چینج لے لیا، زید کہتا ہے میں دے چکا ہوں ۔دونوں کے پاس گواہ بھی نہیں ہیں، دونوں قسم کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
لہذا آپ سے درخواست ہے اس صورت مسئلہ کا جو شرعی حل ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں زید مدعی ہےکہ میں نے پانچ ہزار روپے دے دیئے ہیں ،جبکہ عمر منکر ہے کہ زید نے پانچ ہزار روپے نہیں دیئے اور گواہ یا بینہ کسی کے پاس موجود نہیں، لہذاعمرو کے ذمے قسم ہے ۔
اگر وہ قسم نہیں دیتا تو زید کے ذمے اسے پانچ ہزار روپے دینے نہیں بنتے، لیکن یہ تب ہے جب زید کا بھی غالب گمان یہ ہو کہ اس نے پانچ ہزار روپے دے دیئے ہیں،ورنہ زید آخرت میں دین دار ہوگا۔
اور اگر عمرو قسم دیدے تو زید پر لازم ہے کہ وہ عمرو کو پانچ ہزار روپے دے، لیکن عمرو کے لیے لینا تب جائز ہوگا جب ا سے غالب گمان ہو کہ زید نےاسےپانچ ہزار روپے نہیں دیئے، ورنہ عمر و آخرت میں دین دار ہوگا۔
دررالحکام(4/511)میں ہے:
اذااختلف البائع والمشتري فقال المشتري اني اديت ثمن المبيع کلااوبعضا
وادي البائع بانه لم يقبض فالقول مع اليمين للبائع والمقصود من القبض هنا الاستيفاء وهو شامل للاخذ والحط والابراء ولو کلا
© Copyright 2024, All Rights Reserved