• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پکڑی پر دکان لینا دینا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد گرامی نے ایک دکان تقریباً 21 سال پہلے کرایہ پر دی، اور اس کی پگڑی مبلغ 275000 روپے وصول کی، اور کرایہ مبلغ 2000 روپے ماہانہ طے پایا، اس ایگریمنٹ کو زبانی کیا گیا تھا، اس کی کوئی تحریر نہ ہوئی تھی، میرے والد گرامی تقریباً 2 سال پہلے فوت ہو گئے ہیں۔ اب میں اس دکان کو خالی کروانا چاہتا ہوں، میرے علم کے مطابق پہلے دس سال کرایہ دکان کا نہیں بڑھایا گیا، بعد میں ہر 3 سال بعد 25 فیصد کرایہ بڑھا، اور اب موجودہ کرایہ تقریبا 5500 روپے ہو گیا ہے۔ اب اگر میں یہ دکان خالی کرواتا ہوں تو مجھے پگڑی والی رقم پرانی ادا کرنا ہو گی یا پھر جدید وقت کے مطابق ادا کرنا ہو گی۔ اور پگڑی والی رقم کو دکان خالی کرواتے وقت زیادہ رقم دینا (نفع دینا) حلال ہے یا کہ حرام؟ رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے: 21 سال پہلے اس دکان کا کرایہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق کتنا تھا؟

2۔ آج کل کے حساب سے اس کا کرایہ کتنا ہے؟

3۔ کرایہ دار کا مؤقف کیا ہے؟

جواب وضاحت: 1۔ 21 سال پہلے دکان کا کرایہ 2000 ہزار، 2500 روپےتھا۔

2۔ آج کل کے حساب سے دکان کا کرایہ تقریباً 30000 ہزار روپے بنتا ہے۔

3۔ کرایہ دار کا مؤقف یہ ہے کہ مجھے پگڑی کی رقم پر نفع دیا جائے، تب دکان آپ کے حوالے کروں گا۔ کرایہ دار 25 سے 30 لاکھ تک نفع مانگ رہے ہیں۔

نوٹ: آپ کے فتوے کا ہمیں یہ فائدہ ہو گا کہ شریعت کیا کہتی ہے، ہمیں پتا چل جائے آگےکرایہ دار مانے یا نہ مانے، اس کی مرضی ہے، لیکن جب مارکیٹ کی پنچائت بیٹھے گی تو ہم ان کو یہ دکھائیں گے، کہ شریعت کا یہ حکم ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پگڑی پر دکان کا لینا دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں فریقین اگر اس معاملہ کو شریعت کے مطابق ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صورت یہ ہے کہ دکاندار، کرایہ دار سے اجرت مثل کا مطالبہ کرے۔ یعنی پگڑی کے بغیر مختلف سالوں میں اس دکان کا مارکیٹ ویلیو کے مطابق جو کرایہ بنتا تھا، اسے وصول کرے۔ نیز جو کرایہ اب تک وصول کر چکا ہے اسے بھی اس میں شامل کرے۔

اور کرایہ دار دکاندار سے پونے تین لاکھ کی 20 سال پہلے جتنی چاندی یا سونا آتا تھا، اتنی چاندی یا اتنے سونے کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اور مطالبے پر دکاندار، کرایہ دار کو اتنی چاندی یا سونا دینے کا پابند ہے، جو 20 سال پہلے پونے تین لاکھ کا بنتا تھا۔

اور اگر کرایہ دار روپے میں ہی اپنی رقم لینا چاہتا ہے تو پھر پونے تین لاکھ سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔

تفصیل کے لیے ’’فقہی مضامین‘‘ (ص: 370) از ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب دامت برکاتہم کو دیکھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved