- فتوی نمبر: 28-145
- تاریخ: 07 مئی 2023
استفتاء
میں south Africa (ساؤتھ افریقہ) میں ہوتا ہوں ،یہ جو میں نے آپ کو پرندوں کی فوٹو بھیجی ہے یہ تقریباً عقاب کے سائز کے ہیں اور یہ گھروں کی چھت پر بیٹھ کربیٹ کرتے ہیں اور جو اوپر ایک گھر کی فوٹو سنڈ کی ہے اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب بھی بارش آتی ہے تو سارا پانی بارش کا اس پائپ کے ذریعے ایک پانی والے ٹینک میں جمع ہو جاتا ہے جس ٹینک کا سائز 5000 لیڑ ہوتا ہے یا 2500 لیڑ ۔
سوال یہ تھا کہ کیا یہ ٹینک والا پانی پاک ہے یا ناپاک؟ کیونکہ ان پرندوں کی بڑی بڑی بیٹ بارش کے پانی کے ساتھ ٹینک کے اندر جاتی ہیں جبکہ یہ پرندے حرام ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ ٹینک کا محیط (Diameter) اگر 72 گز ہے تو پھر اس میں موجود پانی اسوقت تک ناپاک شمار نہیں ہوگا جب تک پانی کا رنگ، مزہ یا بُو نہ بدل جائے اور اگر مذکورہ ٹینک کا محیط 72 گز سے کم ہے تو پھر اس کا پانی نجاست گرنے سے ناپاک ہوجائے گا چاہے رنگ، مزہ یا بُو تبدیل نہ ہو۔
اس ٹینکی کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ٹینکی سے بیٹ نکال کر ٹینکی کو اس طرح جاری کیا جائے کہ ایک طرف سے پانی ٹینکی میں داخل ہو اور دوسری طرف سے نل کھول دیں۔ جب پانی بہنا شروع ہوجائے گا تو ٹینکی کا پانی پاک ہوجائے گا۔
توجیہ: مذکورہ پرندے چونکہ حرام ہیں لہٰذ ا ان کی بیٹ ناپاک ہے، لہٰذا اس کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ بیٹ تھوڑے پانی میں گرجائے تو وہ نجس ہوجائے گا اور اگر کثیر پانی میں گرے تو جب تک اس کا رنگ یا مزہ یا بُو نہ بدل جائے تو پانی ناپاک نہ ہوگا اب اگر مذکورہ ٹینک کا محیط 48 ذراع (48×1.5=72) گز ہے تو اس ٹینک کا پانی کثیر شمار ہوگا ورنہ قلیل شمار ہوگا۔
نوٹ: اگرچہ حرام پرندوں کی بیٹ نجاست خفیفہ ہوتی ہے تاہم پانی کے ناپاک ہونے میں خفیفہ یا غلیظہ کا کوئی فرق نہیں ہے۔
شامی(1/599) میں ہے:
(وخرء) كل طير لا يذرق في الهواء كبط أهلي (ودجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولا فطاهر، وإلا فمخفف
فتاویٰ عالمگیری(1/33) میں ہے:
(الثاني الماء الراكد) الماء الراكد إذا كان كثيرا فهو بمنزلة الجاري لا يتنجس جميعه بوقوع النجاسة في طرف منه إلا أن يتغير لونه أو طعمه أو ريحه وعلى هذا اتفق العلماء وبه أخذ عامة المشايخ – رحمهم الله – كذا في المحيط.
وهل يتنجس موضع وقوع النجاسة ففي المرئية؟ يتنجس بالإجماع ويترك من موضع النجاسة قدر الحوض الصغير ثم يتوضأ، وفي غير المرئية عند مشايخ العراق كذلك وعند مشايخ بخارى يتوضأ من موضع وقوع النجاسة. هكذا في الخلاصة وهو الأصح. كذا في السراج الوهاج.
ومقدار الحوض الصغير أربعة أذرع في أربعة أذرع. هكذا في الكفاية، وعن أبي يوسف – رحمه الله – أن الغدير العظيم كالجاري لا يتنجس إلا بالتغير من غير فصل هكذا في فتح القدير والفاصل بين الكثير والقليل أنه إذا كان الماء بحيث يخلص بعضه إلى بعض بأن تصل النجاسة من الجزء المستعمل إلى الجانب الآخر فهو قليل وإلا فكثير قال أبو سليمان الجوزجاني إن كان عشرا في عشر فهو مما لا يخلص وبه أخذ عامة المشايخ – رحمهم الله -. هكذا في المحيط.
والمعتبر في عمقه أن يكون بحال لا ينحسر بالاغتراف هو الصحيح. كذا في الهداية والمعتبر ذراع الكرباس. كذا في الظهيرية وعليه الفتوى. كذا في الهداية وهو ذراع العامة ست قبضات أربع وعشرون أصبعا. كذا في التبيين وإن كان الحوض مدورا يعتبر ثمانية وأربعون ذراعا. كذا في الخلاصة وهو الأحوط. كذا في محيط السرخسي
فتاویٰ عالمگیری(1/17) میں ہے:
حوض صغير تنجس ماؤه فدخل الماء الطاهر فيه من جانب وسال ماء الحوض من جانب آخر كان الفقيه أبو جعفر – رحمه الله – يقول: كما سال ماء الحوض من الجانب الآخر يحكم بطهارة الحوض وهو اختيار الصدر الشهيد – رحمه الله -. كذا في المحيط وفي النوازل وبه نأخذ كذا في التتارخانية
فتاویٰ عالمگیری(1/88) میں ہے:
وبول ما يؤكل لحمه والفرس وخرء طير لايؤكل فمخفف هكذا فى الكنز
شامی(1/579) میں ہے:
(ثم الخفة انما تظهر فى غير الماء)
قال الشامى: والحاصل ان المائع متى اصابته نجاسة خفيفة أو غليظة وان قلت تنجس ولا يعتبر فيه ربع ولادرهم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved