• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

پرچون پر زکوٰۃ کا حکم

استفتاء

ایک دکان والااپنی زکوٰۃ کیسے ادا کرے گا؟ پرچون کے اعتبار سے یا ہول سیل کے اعتبار سے حالانکہ وہ کام صرف پرچون والا کرتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نہ پرچون کے ریٹ کا اعتبار ہوگا نہ ہول سیل کے ریٹ کا اعتبار ہوگابلکہ آپ کے مال کا جو ’’عام نرخ‘‘/ ’’بازاری نرخ‘‘ چل رہا ہو اسےمعلوم کریں اور اس کے مطابق زکوٰۃ دیں۔

در مختار مع ردالمحتار (270/3) میں ہے:

”في (‌عرض ‌تجارة ‌قيمته نصاب) الجملة صفة عرض، وهو هنا ما ليس بنقد. وأما عدم صحة النية في نحو الارض الخراجية فلقيام المانع كما قدمنا، لا لان الارض ليست من العرض فتنبه (من ذهب أو ورق) أي فضة مضروبة، فأفاد أن التقويم إنما يكون بالمسكوك عملا بالعرف (مقوما بأحدهما) إن استويا، فلو أحدهما أروج تعين التقويم به“

بدائع الصنائع (109/2) میں ہے:

”وأما أموال التجارة ‌فتقدير ‌النصاب ‌فيها ‌بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة، وهذا قول عامة العلماء“

فتاوی دارالعلوم دیوبند  (6/110)  میں ہے:

سوال: اسباب تجارت پر زکو دینے میں اعتبار نرخ خریداری کا کیا جاوے یا جو نرخ اس وقت بازار میں ہے؟

 جواب: اسباب تجارت پر زکوۃ اس قیمت کے اعتبار سے دی جاوے گی جو بازار کے موافق ہے۔ اسی پر عمل کرنا چاہیے اگر نرخ خرید کے موافق زکاۃ دے اور باعتبار نرخ بازار زیادہ واجب ہوئی تھی تو باقی زکوۃ اس کے ذمہ رہی اس کو ادا کرے۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند (6/105) میں ہے:

 سوال سوداگر کے پاس مال موجود ہے اب زکوۃ دینا چاہتا ہے سال بھر کے بعد۔ تو اس مال کی قیمت خرید کا اعتبار ہوگا یا بازار کے بھاؤ کا لحاظ ہوگا

 جواب:مال تجارت کی جو قیمت بازار میں بوقت زکوۃ دینے کے ہے اسی قیمت کے اعتبار سے زکوۃ ادا کی جاوے ‘ خواہ قیمت خرید سے زیادہ ہو یا کم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved