- فتوی نمبر: 28-249
- تاریخ: 10 نومبر 2022
- عنوانات: حظر و اباحت > عملیات، تعویذات اور جادو و جنات
استفتاء
1.عام حالات میں غیر محارم سے عورت کا پردہ کرنا کس حد تک ہے؟
- جس گھر میں رشتہ داروں (مردوں) کی کثرت سے آمد ورفت ہو تو اس صورت میں پردہ کا کیا حکم ہے؟
- مشترکہ خاندان (جوائنٹ فیملی) میں جیٹھ، دیور یا ان سے پردہ کرنے کی صورت میں حرج ہو تو اس صورت میں پردے کی کیا صورت ہوگی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔عام حالات میں غیر محارم سے سر سے پاوں تک مکمل پردہ کرنا ضروری ہے۔
2۔اس صورت میں بھی پردے کا وہی حکم ہےجو عام حالات میں ہے۔
3۔ اس صورت میں اتنی گنجائش ہے کہ چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی جسم کو تو خوب ڈھک کررکھے اور چہرے کو گھونگٹ کے ذریعے جتنا ہوسکے اتنا ڈھک لے پھر بھی کچھ کمی بیشی ہو جائے تو اس کی گنجائش ہے۔
رد المحتار (9/610)میں ہے:
(وعبدها كالأجنبي معها) فينظر لوجهها وكفيها فقط. نعم يدخل عليها بلا إذنها إجماعا، ولا يسافر بها إجماعا خلاصة وعند الشافعي ومالك ينظر كمحرمه (فإن خاف الشهوة) أو شك (امتنع نظره إلى وجهها) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة وإلا فحرام وهذا في زمانهم، وأما في زماننا فمنع من الشابة قهستاني وغيره (إلا) النظر لا المس (لحاجة) كقاض وشاهد يحكم قوله وعبدها كالأجنبي معها) لأن خوف الفتنة منه كالأجنبي بل أكثر لكثرة الاجتماع والنصوص المحرمة مطلقة…….. قوله فإن خاف الشهوة) قدمنا حدها أول الفصل (قوله مقيد بعدم الشهوة) قال في التتارخانية، وفي شرح الكرخي النظر إلى وجه الأجنبية الحرة ليس بحرام، ولكنه يكره لغير حاجة اهـ وظاهره الكراهة ولو بلا شهوة (قوله وإلا فحرام) أي إن كان عن شهوة حرم (قوله وأما في زماننا فمنع من الشابة) لا لأنه عورة بل لخوف الفتنة كما قدمه في شروط الصلاة
پردہ کے شرعی احکام ، مؤلفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ(202)میں ہے:
مسلمہ،حرہ ،مراہقہ یا بالغہ ،شابہ یا عجوز کے ستر عن غیرالمحارم کے تین درجے ہیں:اول:بجز وجہ و کفین اور عند البعض بجز قدمین بھی تمام بدن کپڑے سے چھپانا اور یہ ادنیٰ درجہ ہے۔
ثانی: وجہ وکفین وقدمین کو بھی برقع وغیرہ سے چھپانا اور یہ درجہ اوسط ہے۔
ثالث: پسِ دیوار یا پسِ پردہ آڑ میں رہنا اور یہ اعلیٰ درجہ ہے۔ اور یہ تینوں درجے نصوص میں مذکور اور شرعاً مامور بہ ہیں۔
احسن الفتاویٰ(9/37) میں ہے:
شرعی پردہ اللہ تعالیٰ کا حکم قطعی ہے اگر قلب میں کچھ فکر آخرت ہو تو اس پر عمل کرنا کچھ مشکل نہیں اس کے لیے علیحدہ گھر ہونا ضروری نہیں، چہرہ چھپانا اور بلاضرورت بات کرنے سے احتراز ایک گھر میں بھی ممکن ہے بقدر ضرورت بات کرنے کی گنجائش ہے اس گنجائش سے ناجائز فائدہ اٹھا کر بلا ضرورت گپ شپ لگانے اور بالکلیہ پردہ ترک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، عورت گھونگٹ کرکے گھر کے سارے کام کرسکتی ہے۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل (8/91)میں ہے:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “جو رشتہ دار محرَم نہیں، مثلاً: خالہ زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد بھائی یا بہنوئی یا دیور وغیرہ جوان عورت کو ان کے رُوبرو آنا اور بے تکلف باتیں کرنا ہرگز نہیں چاہئے، اگر مکان کی تنگی یا ہر وقت کی آمد و رفت کی وجہ سے گہرا پردہ نہ ہوسکے تو سر سے پاوٴں تک کسی میلی چادر سے ڈھانک کر شرم و لحاظ سے بضرورت رُوبرو آجائے اور کلائی، بازُو، سر کے بال اور پنڈلی ان سب کا ظاہر کرنا حرام ہے، اسی طرح ان لوگوں کے رُوبرو عطر لگاکر عورت کو آنا جائز نہیں، اور نہ بجتا ہوا زیور پہنے۔ (تعلیم الطالب ص:۵)
مسائل بہشتی زیور (2/452)میں ہے:
مسئلہ:جو شرعاً نامحرم ہو، اس کے روبرو سر اور بازو اور پنڈلی وغیرہ بھی کھولنا حرام ہے۔
مسئلہ: اگر بہت ہی مجبوری ہو مثلاً مشترکہ گھر ہونے کی وجہ سے کوئی رشتہ دار کثرت سے گھر میں آتا جاتا رہتاہے اور گھر میں تنگی ہے کہ ہر وقت کا پردہ نبھ نہیں سکتا، ایسی حالت میں جائز ہے کہ اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائی کے جوڑ تک، دونوں پائوں کے ٹخنے کے نیچے تک کھولے رکھے اور اس کے علاوہ اور کسی حصے کا کھولنا جائز نہ ہوگا۔ پس ایسی عورتوں کو لازم ہے کہ سرکو خوب ڈھانکیں ، کرتہ بڑی آستین کا پہنیں ، اور کلائی اور ٹخنے نہ کھلنے پائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved