- فتوی نمبر: 9-33
- تاریخ: 15 جون 2016
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
ہمارے ہاں مرکز *** پارک اور مرکز***مسجد میں پارکنگ کی ایک جگہ ہے، جہاں شبِ جمعہ پر آنے والے لوگ اپنی گاڑیاں، موٹر سائیکلیں وغیرہ پارک کرتے ہیں۔ مرکز والوں کی طرف سےاس جگہ کا ٹھیکہ کچھ احباب کو دیا گیا ہے۔ چنانچہ وہ حضرات آنے والی گاڑیوں وغیرہ سے ٹوکن کے پیسے لیتے ہیں۔ مرکز کی طرف سے ان حضرات کے ساتھ یہ معاہدہ بھی طےہے کہ اگر کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل وغیرہ چوری ہو گئی یا کچھ نقصان ہو گیا مثلاً شیشہ اتر گیا وغیرہ تواس کی ذمہ داری بھی ان لوگوں پر ہو گی۔ اور یہ اس نقصان کا تاوان ادا کریں گے۔ انہوں نے اس چیز کو معاہدے میں قبول کیا ہوا ہے۔
گذشتہ دنوں اس جگہ میں صفائی کے بعد کوڑا اکٹھا کر کے انہی ساتھیوں نے آگ لگائی، کوڑا جل گیا، آگ بظاہر بجھ گئی۔ ایک صاحب نے آکر اپنا رکشہ پارک کرنا چاہا تو متعلقہ احباب نے اس کا رکشہ اس راکھ پر کھڑا کروا دیا۔ متعلقہ احباب کا خیال یہی تھا کہ آگ بظاہر بجھ گئی ہے۔ لیکن بظاہر اس راکھ کے اندر کوئی چنگاری دبی رہ گئی تھی کہ جس سے اس رکشے کو آگ لگی اور وہ رکشہ جل گیا۔
اس تفصیل کی روشنی میں ان سوالوں کا جواب مطلوب ہے:
1۔ کیا مذکورہ بالا ٹھیکے داری کا معاملہ درست ہے؟
2۔ کیا ان حضرات سے طے کر کے نقصان کا تاوان ان پر ڈالنا درست ہے؟
3۔ مذکورہ معاہدے میں طے ہونے کے باعث رکشے کا تاوان ان پر آئے گا یا نہیں؟
مزید وضاحت: مرکز والے پارکنگ کی جگہ کے ٹھیکے کا کوئی عوض/ کرایہ وصول نہیں کرتے، ٹھیکہ بلا عوض کے ہے اور مدت بھی طے نہیں ہے۔ پارکنگ والے لوگوں سے پارکنگ کی ٹوکن فیس وصول کرتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں پارکنگ کے منتظمین مرکز کی زمین کو بلا عوض اجازت کے ساتھ اباحتاً استعمال کر رہے ہیں۔ لہذا مرکز اور پارکنگ والوں کا معاملہ ٹھیکہ داری کا نہیں ہے۔ البتہ منتظمین کا معاملہ پارکنگ استعمال کرنے والوں سے اجارہ کا ہے، جو تعاطی کے طریقہ پر ہے اور پارکنگ والے اجیر مشترک ہیں۔
2۔ معاہدہ میں نقصان کے تاوان کی شرط ہو یا نہ ہو بہر صورت پارکنگ کے منتظمین ہر اس نقصان کے تاوان کے ذمہ دار ہیں جو ان کی غلطی، کوتاہی اور تعدّی کی وجہ سے ہو یا ان کے کسی بھی فعل کی وجہ سے ہو۔ چاہے اس فعل میں ان کی طرف سے قصداً تعدی نہ پائی جائے۔ نیز اس نقصان سے بچنا ممکن ہو۔
3۔ رکشہ جلنے کے تاوان کی ذمہ داری پارکنگ والوں پر ہے۔
في أصول البزدوي (1/ 368):
الأصل أن أمور المسلمين محمولة على السداد و الصلاح حتى يظهر غيره.
قال في المجلة الأحكام العدلية:
(مادة: 765): العارية: هي المال الذي تملك منفعته الآخر مجاناً أي بلا بدل و يسمى معاراً أو مستعاراً أيضاً.
(مادة: 804): الإعارة تنعقد بالإيجاب و القبول و بالتعاطي.
(مادة: 437): تنعقد الإجارة بالتعاطي أيضاً كالركوب في باخرة المسافرين و زوارق المواني و دواب الكراء من دون مقاولة، فإن كانت الأجرة معلومة أعطيت و إلا فأجرة المثل.
(مادة: 611): الأجير المشترك يضمن الضرر و الخسار الذي تولد عن فعله و صنعه إن كان بتعديه و تقصيره أو لم يكن.
و في الهندية (4/ 505):
و لو شرط الضمان على المشترك إن هلك قيل يضمن إجماعاً و الفتوى على أنه لا أثر له و اشتراطه و عدمه سواء. كذا في الوجيز لكردري.
و في رد المحتار على الدر المختار (9/ 114):
و حاصل ما في الطواري عن المحيط: أن ضمان المشترك ما تلف مقيد بثلاثة شرائط أن يكون في قدرته رفع ذلك، فلو غرقت بموج أو ريح و صدمة جبل لا يضمن. و أن يكون محل العمل مسلماً إليه بالتخلية، فلو رب المتاع أو وكيله في السفينة لا يضمن. و أن يكون المضمون مما يجوز أن يضمن بالعقد فلا يضمن الآدمي كما يأتي.
و في المجلة (مادة: 777):
الوديعة أمانة في يد الوديع بناء عليه إذا هلك بلا تعد من المستودع و بدون صنعه و تقصيره في الحفظ فلا يلزم الضمان إلا أنه إذا كان الإيداع بأجرة على حفظ الوديعة فهلك أو ضاعت بسبب يمكن التحرز منه لزم المستودع ضمانها. مثلاً … كذلك إذا أودع رجل ماله عند آخر و أعطاه أجرة على حفظه فضاع المال بسبب يمكن التحرز منه كالسرقة فيلزم المستودع الضمان.فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved