• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے 6 سال پہلے تین طلاقیں دے کر اہل حدیث سے ایک طلاق کا فتویٰ لے لیا تھا، کیا اب میاں بیوی کا اکٹھے رہنا درست ہے؟

استفتاء

مفتی صاحب میرے ایک بھائی نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین دفعہ طلاق دے دی تھی، پھر اہل حدیث کے مدرسے سے فتویٰ لے آئے تھے کہ ایک مجلس میں صرف ایک طلاق ہوتی ہے۔ اس بات کو 6 سال گزر گئے ہیں اور ایک بیٹی بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اب پھر ان کا جھگڑا ہوا ہے اور اس کے سسرال والے دیوبندی علماء سے پوچھ کر کہہ رہے ہیں کہ 6 سال پہلے طلاق ہوگئی ہے اس معاملے میں آپ کی رائے شریعت کی روشنی میں درکار ہے۔ مہربانی فرما کر اس بارے میں اگر کوئی گنجائش ہے تو بتادیں۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: (1)طلاق کے الفاظ کیا تھے؟، (2)سوال پوچھنے سے غرض کیا ہے؟ چھ سال تک سسرال والے خاموش کیوں رہے؟

جواب وضاحت: (1)طلاق کے الفاظ تین بار  کہے تھے، 6 سال گزر چکے ہیں اس لیے ٹھیک سے یاد نہیں۔ (2)سسرال والے کہتے ہیں کہ طلاق ہوگئی تھی، بیوی آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ فتویٰ اہل حدیث سے لیا گیا تھا۔

مزید وضاحت درکار ہے کہ: طلاق کے الفاظ اگر آپ کو یاد نہیں تو بیوی سے پوچھ کر بتا دیں۔ نیز سسرال کا رابطہ بھی دیں تاکہ ان کا مؤقف بھی معلوم کیا جاسکے۔

جواب وضاحت: الفاظ یہ تھے کہ تمہیں طلاق ہے، 3 بار۔ اس دوران ہمارا کزن کھڑا تھا، اس نے بھائی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا لیکن 3 بار کہہ دیا اور اس کی بیوی یہ بات سنتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی

لڑکی والوں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مذکورہ صورتحال کی تصدیق کی ہے۔(از دار الافتاء)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں 6 سال پہلے جب شوہر نے تین مرتبہ طلاق کے الفاظ کہ ’’تمہیں طلاق ہے‘‘  کہے تھے تو اسی وقت تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں تھیں اور تین طلاقوں کے بعد نکاح ختم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے اور دوبارہ صلح یا رجوع کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں 6 سال پہلے تین طلاقیں دینے کے بعد میاں بیوی کا اکٹھے رہنا جائز نہ تھا اس لیے اس پر توبہ واستغفار کریں۔

واضح رہے کہ تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں چاہے اکٹھی ایک مجلس میں دی جائیں یا الگ الگ مجالس میں دی جائیں۔ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔

علامہ بدرالدین العینی رحمہ اللہ تعالی صحیح بخاری شریف کی شرح عمدۃ القاری (جلد1، صفحہ 232)میں تحریر فرماتے ہیں:حيث قال مذهب جماهير العلماء من التابعين و من بعدهم منهم الأوزاعي و النخعي و الثورى و ابوحنيفة و أصحابه و مالك و أصحابه والشافعي و أصحابه و احمد و أصحابه و إسحاق و ابوثور و ابوعبيدة و آخرون كثيرون على أن من طلق امرأته ثلاثا يقعن و لكنه يأثممرقاة المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح (جلد6 صفحہ 293) میں ہے:قال النووى "اختلفوا فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال مالك والشافعي وأحمد وابوحنيفة والجمهور من السلف و الخلف يقع ثلاثاوفيه وأيضا: وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث (جلد 3 صفحه 330)بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} سواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة ….. الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved