• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پہلے وطن اصلی کے بطلان کی ایک صورت

استفتاء

میرے دادا کی جائیداد اور گھر کرم ایجنسی میں ہے ، اب وہ یہاں سے منتقل ہو پشاور میں کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہیں ، اب وہ مستقل پشاور کے گھر میں ہی رہتے ہیں۔جب وہ کسی ضرورت کے لیے کرم ایجنسی آئے گا تو کیا سفر کی نماز پڑھے  گا یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: کرم ایجنسی سے رہائش بالکل ختم کر کے ہمیشہ رہنے کے ارادے سے پشاور آئے ہیں یا نہیں؟

جواب وضاحت: جی ہاں کرم ایجنسی سے ہمیشہ پشاور رہنے کے ارادے سے آئے ہیں البتہ کبھی کبھار ضرورت یا خوشی غمی کے موقع پر کرم ایجنسی آنا جانا ہوتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے دادا جب پشاور سے کرم ایجنسی 15 دن سے کم کی نیت سے جائیں گے تو قصرپڑھیں گے۔

تو جیہ: کیونکہ آپ کے دادا کرم ایجنسی سے رہائش ختم کر کے مستقل طور پر بمع اہل و عیال پشاور منتقل ہو گئے ہیں اس لیے پشاور اب ان کا وطن اصلی بن گیا ہے۔پشاور کے وطن اصلی بننے کی وجہ سےپہلا وطن اصلی کرم ایجنسی ختم ہو گیا ہے اگرچہ گھر اور جائیداد کرم ایجنسی میں ہے لیکن شرعا اس کا اعتبار نہیں ۔

الدر المختار مع رد المحتار (2/739) میں ہے:

(الوطن الاصلي) ‌هو ‌موطن ‌ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالاول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما.

(قوله الوطن الأصلي) ويسمى بالأهلي ووطن الفطرة والقرار ح عن القهستاني……..(قوله إذا لم يبق له بالأول أهل) أي وإن بقي له فيه عقار قال في النهر: ولو نقل أهله ومتاعه وله دور في البلد لا تبقى وطنا له وقيل تبقى كذا في المحيط وغيره

مسائل بہشتی زیور جلد ایک صفحہ 254 میں ہے

 مسئلہ۔ اگر کسی شخص نے اپنا شہر بالکل چھوڑ دیا اور کسی دوسرے شہر میں اپنا گھر بنا لیا اور بیوی بچوں سمیت وہاں رہنے لگا اور پہلے شہر اور پہلے گھر سے کچھ مطلب نہیں رہا تو اب دوسرا شہر اس کا وطن اصلی بن گیا ہے اور پہلا شہر اور دوسرے شہر سب برابر ہو گئے اس لیے اگر پہلے شہر میں جائے گا تو مسافر ہوگا

مسئلہ۔اگر وطن اصلی سے اپنے اہل و عیال اور سامان سمیت کسی دوسرے شہر کو چلا گیا اور اس کو وطن بنا لیا لیکن پہلے شہر میں اس کا گھر اور زمین باقی ہیں تو وہ وطن باقی نہیں رہے گا اس لیے کہ اعتبار اہلکا ہے نہ کہ جائیداد کا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved