• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پہلی صف میں کھڑے ہونے کے لیے کم از کم عمر

استفتاء

نماز باجماعت میں پہلی صف میں کھڑا ہونے کے لیے کم از کم کتنی عمر ہونی چاہیے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پہلی صف میں  اگر بالغ مرد موجود ہوں تو ان بالغ مردوں کی صف میں کھڑا ہونے کے لیے بالغ ہونا چاہیے یا کم از کم چاند کے لحاظ سے 15 سال کا ہونا چاہیے تاہم اگر کوئی بچہ نہ بالغ ہوا ہو اور نہ وہ چاند کے لحاظ سے 15 سال کی عمر کا ہو تو اس صورت میں اگر وہ  اکیلا ہو تو اسے بڑوں کی صف میں کھڑا کیا جائے گا اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو ان کی الگ صف بنائی جائے گی اور اگر ان کی الگ صف بنانے میں یہ اندیشہ ہو کہ وہ مل کر شرارت کریں گے جس سے دوسروں کی نماز خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو ان کو متفرق طور پر بڑوں کی صف میں کھڑا کریں گے۔

نوٹ: یہ سب تفصیل سات سال کے یا اس سے اوپر کی عمر کے بچوں کی ہے ۔ سات سال سے کم عمر کے بچوں کو مسجد میں لانا درست نہیں۔

تنبیہ! پہلی صف میں  امام کے پیچھے ایسے لوگوں کو کھڑا ہونا چاہیے جو دینی سمجھ بوجھ والے ہوں۔

البحر الرائق(1/618) میں ہے:

“(قوله ويصف الرجال ثم الصبيان ثم النساء) لقوله – عليه الصلاة والسلام – «ليليني منكم أولو الأحلام والنهى» ولأن المحاذاة مفسدة فيؤخرون، وليلني أمر الغائب من الولي وهو القرب، والأحلام جمع حلم بضم الحاء وهو ما يراه النائم أريد به البالغون مجازا؛ لأن الحلم سبب البلوغ، والنهى جمع نهية وهي العقل كذا في غاية البيان ولم يذكر الخناثى كما في المجمع وغيره لندرة وجوده، وذكر الإسبيجابي أنه يقوم الرجال صفا مما يلي الإمام ثم الصبيان بعدهم ثم الخناثى ثم الإناث ثم الصبيات المراهقات، وفي شرح منية المصلي المذكور في عامة الكتب أربعة أقسام. قيل وليس هذا الترتيب لهذه الأقسام بحاصر لجملة الأقسام الممكنة فإنها تنتهي إلى اثني عشر قسما والترتيب الحاصر لها أن يقدم الأحرار البالغون، ثم الأحرار الصبيان، ثم العبيد البالغون، ثم العبيد الصبيان، ثم الأحرار الخناثى الكبار، ثم الأحرار الخناثى الصغار، ثم الأرقاء الخناثى الكبار، ثم الأرقاء الخناثى الصغار، ثم الحرائر الكبار، ثم الحرائر الصغار، ثم الإماء الكبار، ثم الإماء الصغار اهـ.

وظاهر كلامهم متونا وشروحا تقديم الرجال على الصبيان مطلقا سواء كانوا أحرارا أو عبيدا فإن الصبي الحر وإن كان له شرف الحرية لكن المطلوب هنا قرب البالغ العاقل بالحديث السابق نعم يقدم البالغ الحر على البالغ العبد، والصبي الحر على الصبي العبد والحرة البالغة على الأمة البالغة والصبية الحرة على الصبية الأمة لشرف الحرية من غير معارض ولم أر صريحا حكم ما إذا صلى ومعه رجل وصبي، وإن كان داخلا تحت قوله والاثنان خلفه وظاهر حديث أنس أنه يسوي بين الرجل والصبي ويكونان خلفه فإنه قال فصففت أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا ويقتضي أيضا أن الصبي الواحد لا يكون منفردا عن صف الرجال بل يدخل في صفهم وأن محل هذا الترتيب إنما هو عند حضور جمع من الرجال وجمع من الصبيان فحينئذ تؤخر الصبيان.”

الدر المختار  مع رد المحتار (2/313) میں ہے:

“(ويصف)…الرجال) ظاهره يعم العبد (ثم الصبيان) ظاهره تعددهم، فلو واحدا دخل الصف.

وفي الرد: (قوله فلو واحدا دخل الصف) ‌ذكره ‌في ‌البحر ‌بحثا، قال: وكذا لو كان المقتدي رجلا وصبيا يصفهما خلفه لحديث أنس فصففت أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا.

الدر المختار شرح تنوير الأبصار (2/429) میں ہے:

«‌ويحرم ‌إدخال ‌صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم، وإلا فيكره»« قوله ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري ” مرفوعا «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسل سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر» ” بحر «والمطاهر جمع مطهرة بكسر الميم، والفتح لغة: وهو كل إناء يتطهر به كما في المصباح، والمراد بالحرمة كراهة التحريم لظنية الدليل. وأما قوله تعالى – {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125]- الآية فيحتمل الطهارة من أعمال أهل الشرك تأمل؛ وعليه فقوله وإلا فيكره أي تنزيها تأمل»

بدائع الصنائع (1/ 158) میں ہے:

«وإن كان مع الإمام رجل واحد ‌أو ‌صبي ‌يعقل الصلاة يقف عن يمين الإمام»

شامی (3/ 566) میں ہے:

(والحضانة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) ب 566): الصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية»

قوله: وقدر بسبع) هو قريب من الأول بل عينه لأنه حينئذ يستنجي وحده، ألا ترى إلى ما يروى عنه – صلى الله عليه وسلم – أنه قال «مروا صبيانكم إذا بلغوا سبعا» والأمر بما لا يكون إلا بعد القدرة على الطهارة زيلعي. (قوله: وبه يفتى) وقيل بتسع سنين. (قوله: لأنه الغالب) أي الاستغناء هو الغالب في هذا السن.

فتاویٰ رحیمیہ (9/120) میں ہے:

الجواب: مسجد میں چھوٹے بچوں کو لانے کی اجازت نہیں۔ مسجد کاادب واحترام باقی نہ رہے گا اور لانے والے کو بھی اطمینان قلب نہ رہے گا نماز میں کھڑے ہوں گے مگر خشوع خضوع نہ ہوگا بچوں کی طرف دل لگا رہے گا۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے”  جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم الخ”   اپنی مسجدوں کو بچوں اور پاگلوں سے بچاؤ۔    اسی لئے فقہاء رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ مسجد میں بچوں کو داخل کرنا اگر اس سے مسجد  کے نجس ہونے کا اندیشہ ہو تو حرام ہے ورنہ مکروہ ہے۔ ومنها حرمة ادخال الصبيان والمجانين حيث غلبت تنجيسهم والا فيكره ہاں اگر بچہ سمجھدار ہو نماز پڑھتا ہو مسجد کے ادب و احترام کا پاس و لحاظ رکھتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ٹھیک ہے غالبا اسی بنا پر سات برس کی قید حدیث میں موجود ہے۔

احسن الفتاوی (3/280) ميں ہے:

اگر صرف ایک ہی نابالغ لڑکا ہو تو اس کو بالغوں کے ساتھ ہی کھڑا کیا جائے اگر نابالغ لڑکے زیادہ ہوں تو ان کو پیچھے کھڑا کرنا مستحب ہے واجب نہیں مگر اس زمانہ میں لڑکوں کو مردوں کی صفوف میں ہی کھڑا کرنا چاہیے کیونکہ دو یا زیادہ لڑکے ایک جگہ جمع ہونے سے اپنی نماز خراب کرتے ہیں بلکہ بالغین کی نماز میں بھی خلل پیدا کرتے ہیں‏۔ قال العلامة الرافعي رحمه الله قوله ذكره في البحر بحثا قال الرحمتى ربما يتعين في زماننا ادخال الصبيان في صفوف الرجال لان المعهود منهم اذا اجتمع الصبيان فاكثر تبطل صلاة بعضهم ببعض وربما تعدى ضررهم الى افساد صلاة الرجال چونکہ یہ قول مطلق ہے لہذا صف اول ثانی اور ثالث میں کوئی فرق نہیں یہ حکم ان بچوں سے متعلق ہے جو نماز اور وضو وغیرہ کی تمیز رکھتے ہوں زیادہ چھوٹے بچوں کو مردوں کی صف میں کھڑا کرنا مکروہ ہے بلکہ مسجد میں لانا ہی جائز نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved