• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

پھوپھی کی  میراث میں بھتیجوں کے حصہ کی ایک صورت

استفتاء

میں مسمّی منیر اے شیخ مرحومہ طاہرہ بیگم کا خاوند ہوں، میری بیگم طاہرہ کا 4ماہ قبل انتقال ہوا تھا، ان کے دو بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ دو بہنیں اور ایک بھائی ان کی وفات سے پہلے ہی انتقال کرگئے تھے۔ طاہرہ بیگم کی وفات کے بعد ان کے ورثاء میں خاوند(منیر اے شیخ) اور ایک بیٹی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک بہن اور ایک بھائی حیات تھے۔

اس رمضان میں بہن اور کچھ دنوں بعد بھائی کا بھی انتقال ہو گیا ہے اب بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی حیات نہیں ہے۔

مرحومہ طاہرہ کواپنے والد کی طرف سے پراپرٹی ملنی تھی، ان کے والد کا انتقال 1996ء میں ہوا تھا۔  بھائیوں نے وراثت میں سے حصہ نہیں دیا تھا، 4سال قبل ان کی بڑی بہن نے وراثت کی تقسیم کا دعویٰ کیا تو محترمہ طاہرہ نے بھی حصہ لینے کے لیے اس دعویٰ پر دستخط کیے ، ان کے انتقال تک انہیں حصہ نہیں ملا کیونکہ بھائی پراپرٹی پر قابض تھا،  اب اس بھائی کا بھی انتقال ہو گیا ہے۔ قابض بھائی نے شادی نہیں کی تھی۔ اب دوسرے بھائی (جو پہلے فوت ہوئے تھےاس) کی اولاد نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی پھوپھی طاہرہ بیگم کی وراثت میں ہمارا بھی حق ہے۔

  1. کیا طاہرہ بیگم کی وراثت (جو کہ ان کو ان کی زندگی میں مطالبہ اور دعویٰ کرنے پر بھی نہیں ملی) اس میں بھتیجوں یعنی جو بھائی پہلے فوت ہوا اس کی اولاد کا حق ہے کہ نہیں؟
  2. اور جتنا عرصہ وہ اس میں رہے وہ بھتیجے اپنی پھوپھی کو کرایہ دیں گے؟

نوٹ: مکان مشترکہ تھا، تقریباً چار سال پہلے تک غیر شادی شدہ  بھائی اس گھر پر قابض رہا اور چار پہلے بھتیجوں نے (جو خود کسی دوسری جگہ رہ رہے تھے) مذکورہ بھائی کو ڈرا دھمکا کر گھر سے نکالا اور گھر پر قبضہ کر لیا اور وہاں اپنا آفس بنایا۔ بہن نے پھر ان بھتیجوں کے خلاف مقدمہ دائرہ کرایا۔

والسلام: عبدالستار انصاری

مزید معلومات کے لیے ڈاکٹر حافظ ضرار صاحب

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  1. مذکورہ صورت میں طاہرہ بیگم کی وراثت میں سے اس بھائی کا حصہ جو طاہر ہ بیگم کی وفات کے وقت حیات تھا طاہرہ بیگم کے بھتیجوں کو ملے گا، کیونکہ اس بھائی کا ان کی وفات کے بعد ان بھتیجوں کے علاوہ اور کوئی وارث موجود نہیں۔
  2. چونکہ مکان مشترک تھا اس لیے بھتیجوں کے ذمے کرایہ نہیں آتا۔ لیکن مذکورہ بھائی اور بھتیجوں کا حق مانگنے کے باوجود بلا اجازت مشترکہ مکان  میں رہنا اور اس کو استعمال کرنا بھی غلط اور گناہ کی بات ہے۔

شرح المجلہ(4/14) میں ہے:

الماده(1075): کل واحد من الشرکاء فى شرکة الملک أجنبى فى حصة الآخر، يعتبر صاحب ملک مخصوص على وجه الکمال فى السکنى و فى الأحوال التابعة لها کالدخول و الخروج… ثم اعلم أن احد الشريکين فى الدار إنما يحل له السکنى فى مقدار حصته فقط، کما سيأتى فى المادة(1081) و إن کان قضاء لا يلزمه أجر لو سکنى کلها باعتبار أنه مالک لکل الدار.

المادة(1083): المهاياة إنما تعتبر و تجري بعد الخصومة، فاذا سکن أحد الشريکين  فى جميع الدار المشترکة مرة مستقلاً و لم يدفع أجرة حصة الآخر فلا يسوغ لشريکه أن يقول له: إما أن تدفع لي أجرة حصتى عن المدة و إما أن أسکن أنا بقدر ما سکنت، و إنما له القسمة إذا کانت الدار قابلة للقسمة (ص:22)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved