• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پلاسٹک کی مصنوعات کی ڈائی کرایہ پر دینے کاحکم

استفتاء

محترم مفتی صاحب!

گذارش ہے کہ مشین پر پلاسٹک کی مصنوعات بنانے کے لیے پہلے لوہے کی ڈائی بنوانی پڑتی ہے۔ ڈائی کی قیمت لاکھ ڈیڑھ لاکھ تک بھی ہوتی ہے۔ اس لیے مینوفیکچرز کے لیے ہر ہر چیز کی علیحدہ علیحدہ ڈائی خریدنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے لوگ ایک دوسرے کو اپنی ڈائیاں  کرایہ پر دیتے ہیں ۔ کرایہ کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ ہم دوسرے شخص کو اس کی ڈائی سے جتنے پیس بنائیں  گے فی پیس مثلاً دو روپے کرایہ دیں  گے۔ چونکہ ہمارے پاس آرڈر آنے میں  کوئی حتمی معاہدہ نہیں  ہوتا اس لیے ہم اس میں  سہولت سمجھتے ہیں  کہ بجائے کوئی ماہانہ فکس کرایہ کے فی پیس کرایہ طے کر لیں ۔ آپ سے گذارش ہے کہ وضاحت فرمادیں  کہ

۱۔ کیا ڈائی کرایہ پر لینا دینا درست ہے؟

۲۔ کیا فی پیس کرایہ طے کرنا درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ ڈائی کرایہ پر لینا دینا درست ہے۔

۲۔ مذکورہ صورت میں  فی پیس کرایہ طے کرنا درست نہیں  کیونکہ یہ صورت عمل پر اجارے کی ہے اور غیر جاندار اعیان میں  عمل کا اجارہ درست نہیں ۔

اس کا متبادل یہ ہے کہ عمل کا اجارہ کرنے کی بجائے وقت کے حساب سے اجارہ کریں ۔ اب کتنے وقت کا اجارہ کیا جائے یہ فریقین کی صوابدید پر موقوف ہے۔

دوسری متبادل صورت یہ ہے کہ دونوں  فریق آپس میں  یوں  معاملہ کریں  کہ ایک کی طرف سے ڈائی ہو گی اور دوسرا کام کرے گا اور فی پیس جو نفع حاصل ہو گا وہ آپس میں  مثلاً 30 اور 70 فیصد کے حساب سے یا اس سے کم و بیش تناسب سے تقسیم ہو گا۔ نفع کی کوئی بھی مقدار فیصد کے حساب سے آپس میں  طے کر سکتے ہیں ۔ اس صورت میں  دونوں  فریقوں  کو آسانی ہو گی کہ جتنا اور جب کام ہو گا صرف اس کے حساب سے نفع تقسیم ہو گا۔ یہ معاملہ آپ ایک مہینے کے لیے بھی کر سکتے ہیں  اور کم و بیش وقت کے لیے بھی کر سکتے ہیں ۔ یہ صورت حنابلہ کے نزدیک جائز ہے۔

مغني (264/5):

و الاجارة علي ضربين: احدهما ان يعقدها علي مدة و الثاني ان يعقدها علي عمل معلوم کبناء حائط ۔۔۔۔ فاذا کان المستاجر مما له عمل کالحيوان جاز فيه الوجهان ۔۔۔ و ان لم يکن له عمل کالدار و الارض لم يجز الا عليٰ مدة۔

في المغني (18/9/8/7)

  1۔وان دفع رجل دابته الي آخر ليعمل عليها ومايرزق الله بينهما نصفين او اثلاثا او کيفما شرطا صح ۔نص عليه في رواية الأثرم ومحمد بن ابي حرب واحمد بن سعيد۔۔

2۔فان اشترک ثلاثة من احدهم دابة ومن آخر راوية ومن الآخر العمل علي ان ما رزق الله تعالي فهو بينهم صح في قياس قول احمد فانه قد نص في الدابة يدفعها الي آخريعمل عليها علي ان لهما الاجرة علي الصحة وهذا مثله لانه دفع دابته الي آخريعمل عليها  والراوية عين تنمي بالعمل عليها فهي کالبهيمة فعلي هذا يکون ما رزق الله بينهم علي ما اتفقوا عليه

3۔القسم الرابع :ان يشترک مالان وبدن صاحب احدهما فهذا يجمع شرکة ومضاربة ۔وهو صحيح فلو کا ن بين رجلين ثلاثة آلاف درهم لاحدٔهما الف وللآخر الفان فأذن صاحب الألفين لصاحب الألف يتصرف فيها علي ان يکون الربح بينهما نصفين صح ويکون لصاحب الألف ثلث الربح بحق ماله والباقي وهو ثلثا الربح بينهما لصاحب الألفين ثلاثة ارباعه وللعامل ربعه وذلک لانه جعل له نصف الربح فجعلناه ستة اسهم ،منها ثلاثة للعامل حصة ماله سهمان وسهم يستحقه بعمله في مال شريکه وحصة مال شريکه اربعة اسهم للعامل سهم وهو الربع۔

4۔ وقالوا لو دفع شبکة الي الصياد ليصيد بها السمک بينهما نصفين فالصيد کله للصياد ولصاحب الشبکة اجر مثلها وقياس مانقل عن احمد صحة الشرکة وما رزق بينهما علي ما شرطاه لانها عين تنمي بالعمل فيها فصح دفعها ببعض نمائها کالارض۔۔۔۔فقط و الله تعاليٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved