- فتوی نمبر: 13-123
- تاریخ: 28 جنوری 2019
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات > عشر و خراج کا بیان
استفتاء
مجھے 26 جولائی 2017 کو ایک فلیٹ الاٹ ہوا…. اس فلیٹ کی قیمت 1 کڑوڑ 20 لاکھ والد صاحب سے قرض لے کر ادا کی۔
6 ماہ بعد فروری 2018 میں فلیٹ بیچنے کا معاہدہ ہوا جس سے رقم یوں وصول ہوئی ۔
یکم فروری : 80 لاکھ
یکم مارچ : 80 لاکھ
20 ستمبر : 70 لاکھ
ان روپوں سے 1 کروڑ قرض اتارا۔۔۔۔۔ اور والد صاحب کے حکم کے مطابق قرض کی رقم پر زکواہ جو تقریباً 3 لاکھ تھی وہ بھی میں نے ادا کی۔۔۔۔۔ بقایا رقم سے گھر بنانے کی نیت سے 20 اگست کو ایک پلاٹ خریدا (میں پہلے بھی ذاتی گھر میں رہائش پذیر ہوں )
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ میرے ذمہ کتنی زکوٰۃ واجب الادا ہے؟
وضاحت مطلوب ہے کہ
اس وقت آپ کی ملکیت میں کتنی رقم ہے؟
جواب وضاحت
اس وقت ملکیت میں کیش رقم نہیں ہے بلکہ کچھ قرض ادا کرنا ابھی باقی ہے جو لے کر پلاٹ خریدا تھا۔
اس کے علاوہ اس وقت ہم 10 مرلے کے ذاتی گھر میں رہائش پزیر ہیں –
جو پلاٹ 20 اگست 2018 کو خریدا ہے وہ رہائشی گھر کے علاوہ ہے۔
وضاحت مطلوب ہے کہ
یہ پلاٹ کس نیت سے خریدا تھا مکان بنا کر بیچنے کے لئے یا کسی اور نیت سےاور اگر بیچنے کے لئے خریدا تھا تو وہ نیت اب تک باقی ہے ؟ اور مذکورہ صورت میں پلاٹ کتنے کا ہے موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق اور آپ نے قرض کتنا ادا کرنا ہے؟
جواب وضاحت
ہمارا موجودہ گھر ضروریات کے لحاظ سے چھوٹا ہے۔ اس پلاٹ پر تین چار سال بعد گھر بنانے کا ارادہ ہے۔۔۔۔ چونکہ میں ریٹائر ہو چکا ہوں اور کوئی ذریعہ معاش نہیں لہٰذا موجودہ گھر کو نیاگھربنانے کے بعد کرائے پر دینے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔
مجھ پر والد صاحب کا تقریباً 24 لاکھ قرض باقی ہے۔
جو پلاٹ 20 اگست 2018 کو خریدا ہے اس کی مالیت اور مارکیٹ ویلیو 1 کروڑ 30 لاکھ ہے
مجھے کمپنی کی طرف سے بھی کچھ جگہ ملی ہے جسے بیچنے لگایا ھوا ہے۔ جگہ بیچ کر والد صاحب کا قرض انشاءاللہ اتر جائے گا۔
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ میرے ذمہ کتنی زکوٰۃ واجب الادا ہے
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں نہ تو فی الحال آپ صاحب نصاب ہیں اور نہ ماضی میں سال بھر صاحب نصاب رہے ہیں اس لیے آپ پر زکاۃ واجب نہیں ہے
© Copyright 2024, All Rights Reserved