• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

پوتی کے لیے زیور کی وصیت اور میراث کی تقسیم

استفتاء

میری بیوی کے پاس تقریباً تین تولہ سے زائد زیور تھا جس کے بارے میں میری بیوی نے کہا تھا کہ اگر میں مرجاؤں تو یہ زیور میری فلاں پوتی کو دے دینا وہ پوتی معذور ہے۔ اب میری بیوی کا تقریباً اڑھائی سال پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ میرے  پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ اس بارے بتائیں کہ کیا وہ زیور پوتی کو دینا پڑے گا؟ یا اس کی شرعی تقسیم ہوگی؟ اگر شرعی تقسیم ہوگی تو کس وارث کے کتنے حصے ہونگے؟ مرحومہ  کے والدین کا پہلے سے انتقال ہوچکا ہے۔

سائل جاوید

نوٹ: مرحومہ کا ترکہ بس یہی زیور ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت وصیت کی ہے اور یہ وصیت تہائی زیور میں نافذ ہوگی اور اگر تمام ورثاء اپنی رضامندی سے سارا زیور مرحومہ کی پوتی کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔  اور مرحومہ کی وراثت  کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ مرحومہ کے کل ترکہ کے 44حصے کیے جائیں، جن میں سے شوہر کو 11حصے اور فی بیٹے کو 6-6حصے اور بیٹی کو 3حصے ملیں گے۔ تقسیم کی صورت یہ ہے:

4 x 11 = 44                                                                                                                        

شوہر5بیٹے1بیٹی
4/1عصبہ
1×113
113 x 11
1133
فی بیٹا 6بیٹی 3

درمختار(10/383) میں ہے:

و ان اوصى لاحدهما لجميع ماله و لآخر بثلث ماله و لم يجز الورثة ذلک فثلثه بينهما نصفان لان الوصية باکثر من الثلث اذا لم يجز تقع باطلة

امداد الاحکام(4/573) میں ہے:

زید کا کچھ روپیہ بطور امانت بکر کے پاس جمع ہے، زید بہت بیمار ہوا تو اس نے بکر سے کہا کہ اگر میں مرجاؤں تو جو روپیہ آپ کے پاس ہے ہمارے بھائیوں کو دے دینا جو کہ ملک میں ہیں،  یکایک اس کے ایک بھائی کا لڑکا ملک سے بتلاش روزگار یہاں پہنچ گیا، عین سکرات میں زید نے بکر سے یہ کہا کہ جو روپیہ ہمارا تمہارے پاس ہے، ہمارے بھائی کے اس لڑکے کو دینا اب وہ شخص مر گیا ہے بعد میں معلوم ہوا کہ میت کے دوبھائی اور ایک بہن ہے اور میت کے بھائیوں نے ایک تار بھی بھیجا کہ روپیہ اور سامان کسی کو نہ دینا پس آنجناب  ارشادفرمادیں کہ اس روپیہ اور سامان وغیرہ کا حقدار کون ہوگا؟ بینوا توجروا

الجواب حامداً و مصلیا

صورت مسؤلہ میں اگر بہالت ہوش و حواس بیمار نے امانت کا روپیہ بھائی کے لڑکے (بھتیجے) کو دلایا ہے تو ظاہر ہے کہ بیمار کے دونوں قول وصیت کے حکم میں ہیں اور وصیت میں بلااجازت ورثاء تہائی پر زیادتی جائز نہیں نیز وصیت بحق ورثاء باطل ہوتی ہے، اس امانت میں سے نصف رقم بھتیجے کو بحکم وصیت دینا چاہئے بشرطیکہ یہ نصف رقم میت کے کل ترکہ کی تہائی پر زائد نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved