• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پرنٹنگ کمپنی میں خام مال کی نگرانی کی ملازمت کرنا

استفتاء

میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا ہوں جو کہ ایک پرنٹنگ کمپنی ہے۔پرنٹنگ کمپنی میں چونکہ تصویریں بھی چھاپی جاتی ہیں لیکن میرا کام پرنٹنگ کرنا نہیں ہے۔میں اس شعبے کے اندر اس کا پورا نظام دیکھتا ہوں کون سا خام مال آ رہا ہے اور کون سا جا رہا ہے،اس کے علاوہ ورکروں کی شفٹوں کی ترتیب بھی میں کرتا ہوں،مجھے پتہ ہے کہ تصویریں چھاپنے والے کی روزی حرام ہوتی ہےاسی لیے آج تک میں نے پرنٹنگ کا کام نہیں سیکھا لیکن اس پورے شعبے کا نظام میں سنبھال رہا ہوں تو کیا میری روزی حرام ہے یا حلال ہے؟پورے معاملات دیکھنے سے متعلق تصویر چھاپنے والا کوئی بھی معاملہ شامل نہیں ہے،تصویریں چھاپنے والا جو شعبہ ہے وہ الگ ہے اس کو جی ایم صاحب خود دیکھتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  نوکری کی گنجائش ہے اور تنخواہ بھی حلال ہے البتہ    اس سے بھی پرہیز کریں تو زیادہ بہتر   ہے ۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں سائل کا   تصویر کے  کام کے ساتھ عقد ملازمت کا تعلق براہ راست نہیں ہے بلکہ  بالواسطہ ہے اور  وہ بھی اصالۃً نہیں ہے بلکہ ضمنی  ہے کیونکہ سائل  کی ذمہ داری خام مال کی نگرانی  ہے  جو آگے پرنٹنگ میں استعمال ہوگا اور یہ  ضروری نہیں ہے کہ ہر خام مال سے  جاندار کی تصویر  ہی بنائی جائے  کیونکہ پرنٹنگ کے کام میں سارا کام تصویروں سے متعلق نہیں ہوتا نیز  جہاں جاندار کی تصویر کا کام  بھی ہو تب بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ ساری جگہ  پر تصویر ہی ہو بلکہ تصویر کے علاوہ تحریری مواد بھی ساتھ ہو سکتا ہے لہذا مذکورہ صورت میں تصویر کے کام کے ساتھ تعلق بالواسطہ ہے  اور وہ بھی  ضمنی ہے اس لیے مذکورہ نوکری کی گنجائش ہے ۔

المبسوط للسرخسی (16/ 39) میں ہے:

«ولا بأس بأن يؤاجر المسلم ‌دارا ‌من ‌الذمي ليسكنها فإن شرب فيها الخمر، أو عبد فيها الصليب، أو أدخل فيها الخنازير لم يلحق المسلم إثم في شيء من ذلك لأنه لم يؤاجرها لذلك والمعصية في فعل المستأجر وفعله دون قصد رب الدار فلا إثم على رب الدار في ذلك.

المحیط البرہانی (7/483) میں ہے:

وإذا استأجر الذميّ من المسلم ‌داراً ‌ليسكنها فلا بأس بذلك؛ لأن الإجارة وقعت على أمر مباح فجازت وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير، لم يلحق المسلم في ذلك شيء لأن المسلم لم يؤاجر لها إنما يؤاجر للسكنى، وكان بمنزلة ما لو أجر داراً من فاسق كان مباحاً، وإن كان يعصي فيها

فتاویٰ عثمانی (3/399) میں ہے:

سوال: محترم مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک صاحب جو کینیڈا میں حال ہی میں معاش کے لیے گئے ہیں ان کی طرف سے سوال کیا گیا  ہے کہ کیا فرماتی ہے شریعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بارے میں کہ ان کو ایک ایسی کمپنی میں ملازمت کی پیشکش ہوئی ہے جو گوشت پیک کر کے سپلائی کرتی ہے ظاہر ہے کہ کینیڈا میں یہ گوشت عام طور پر حلال نہیں ہوتا اور اس کی تمام چیزیں جو وہ کمپنی بناتی ہے وہ حلال نہیں ہیں اس کمپنی کا جس میں ان صاحب کو ملازمت کی پیشکش کی گئی ہے سوائے گوشت اور گوشت کی دیگر خوردنی مصنوعات کو بنانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے ان صاحب کو اس کمپنی کے اکاؤنٹ ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کی پیشکش ہے، ان کا پوچھنا یہ ہے کیا ایسی کمپنی میں ملازمت ان کے لیے لینا جائز ہوگا یا نہیں؟ خاص طور پر ایسی صورت میں کہ ابھی انہوں نے ہجرت کی ہے اور وہ معاش کی تلاش میں کچھ دنوں سے پھر رہے ہیں اور انہیں کوئی خاطر خواہ ملازمت نہیں مل رہی۔

جواب ارشاد فرما کر مشکور فرمائیں۔

جواب: صورت مسئولہ میں مذکورہ کمپنی کے اکاؤنٹ ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کی گنجائش معلوم ہوتی ہے وجہ یہ ہے کہ غیر مذبوح گوشت اگرچہ ہمارے نزدیک حلال نہیں اور اس کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں لیکن غیر مسلموں کے نزدیک چونکہ جائز ہے اس لیے فقہاء کرام نے ان کے درمیان ہونے والی ایسی بیع کو نافذ قرار دیا ہے اور اس کی مالیت کا اعتبار کیا ہے لہذا اس خرید و فروخت سے انہیں جو رقم حاصل ہوئی ہے وہ عقد باطل کے ذریعے نہیں ہوئی البتہ کسی مسلمان کو بذات خود اس خرید و فروخت میں ملوث ہونا جائز نہیں لیکن اکاؤنٹ کی ملازمت میں اگر مسلمان کو خود یہ گوشت بیچنا نہ پڑے بلکہ صرف کمپنی کے حسابات رکھنے پڑیں تو یہ اعانت علی المعصیت میں داخل ہو کر حرام نہ ہوگا کیونکہ یہ اعانت بعیدہ ہے لہذا حاجت کے وقت اس ملازمت کی گنجائش معلوم ہوتی ہے تاہم پرہیز کرنے میں احتیاط ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved