- فتوی نمبر: 16-348
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > غصب و ضمان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ
1۔کوئی بھی پروفیشن (پیشہ) کے طور پر معالج ہو اور کچھ مریض جو دور دراز سے آتے ہوں اور کچھ اکرام اور تحفہ تحائف بھی کبھی لے آتے ہوں، تو قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟
2۔معالج فی میل ہو اور اس کے لیے ہدیہ لانے والے میل ہوں یا معالج میل ہو اور اس کے لیےہدیہ لانے والےمیل اور فی میل ہوں تو ہدیہ قبول کرنا درست ہے یا نہیں؟
وضاحت مطلوب ہے:معالج گورنمنٹ ملازم ہیں یا پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں ؟
جواب وضاحت :گورنمنٹ کے ملازم نہیں ہیں،حکیم ہیں اپنا مطب ہے،لوگ بغیر کسی مفاد کے خلوص کے طور پر لے آتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
.1مذکورہ صورت میں حکیم صاحب کے لیے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔
.2 فی میل (عورت) کےلیے میل (مرد) سے یا میل(مرد) معالج کےلیےفی میل (عورت) سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے، بشرطیکہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔
امداد الاحکام 596/3میں ہے:
تبویب:
۔۔۔۔۔ (13- 14- 15) انشورنس کی مد میں جو رقم موصول ہوئی وہ چونکہ انشورنس کمپنی کی جانب سے جاری ہوئی ہے اور چیک بھی کمپنی کا آیا ہے، لہذا ضابطے کے مطابق جتنی رقم مرحوم کی تنخواہ میں سے انشورنس کی مد میں جبراً کٹی ہے اس میں تو وراثت جاری ہو گی۔ باقی کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا ہو گا۔
بعض دفعہ حکیم صاحب کو کچھ روپے بطور ہدیہ مگر اس میں غرض خفی ہوتی ہے جس کا ذکر آئندہ آتا ہے اس لیے شبہ ہوتاہے کہ یہ رقم لینا دیناکس کے حق میں ناجائز ہے ؟وہ صورت یہ کہ اول تو حکیم صاحب کے سابقہ احسانات ہوتے ہیں کہ حکیم صاحب نے عرصۂ دراز تک مفت علاج کیا تھا ،اس لیے خیال پیدا ہوا کہ کچھ رقم معاوضۂ احسان سمجھ کر بطور ہدیہ یا نذرانہ دیا جائے؟
جواب:یہ صورت جائز ہے کچھ شبہ نہیں۔
دوسری یہ ہے کہ اگر چہ ابھی تک حکیم صاحب سے کوئی خدمت نہیں لی ہے ، مگر ہدیہ دیتے وقت یہ نیت نہیں ہوتی ہے کہ آئندہ حکیم صاحب مفت علاج کریں گے یا تھوڑے معاوضہ پر بھی زیادہ توجہ سے علاج کریں گے ،تو فرمائیے کہ ایسی صورت نذرانہ دراصل ہدیہ ہے یا رشوت یا اجرت پیشگی وغیرہ؟
جواب:یہ رشوت یا اجرت تو نہیں ، بلکہ ہدیہ ہی ہے اور جائز ہے۔اما عدم كونه رشوة فلان الرشوة اخذ العوض عن عمل واجب عليه من قبل و عدم كونه اجرة لخلوه عن اركان الاجارة و شرائطها .
سوال:اور یہ صورت تو کبھی کبھی اور بزرگوں کے ساتھ بھی پیش آتی ہے کہ ہدیہ اگرچہ فی الفور کوئی غرض ظاہر نہ کی بلکہ نیت میں اس کو یا تو سابقہ احسانات کامعاوضہ سمجھا یا آئندہ احسانات کی توقع رکھی اور توقع احسانات سے مراد محبت زیادہ ہونا ہے تو ایسی صورت کاہدیہ ناجائز ہے یا درست ہونے کی کوئی تاویل ہے؟
جواب:جائز ہے۔فان الغرض من الهدية هو هذا اى زيادة الارتباط و التعلق تهادوا و تحابوا .
کتاب الفتاوی 309/6 میں ہے:
سوال:-{2264}اسلام میں تحفہ دینا اور قبول کرنا دونوں جائز ہے،اس لئے اگر کوئی غیر محرم ہمیں تحفہ دے تو کیا اسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟ اگر ہم قبول نہ کریں تو اس کی دل شکنی ہوگی ، تو کیا اس سے گناہ ہوگا ؟
جواب:یوں تو ایک مسلمان کیا ہر انسان کا تحفہ قبول کرنا جائز ہے ، اور اگر کسی عورت کو اندیشہ ہو یا مال حرام ہونے کا گمان ہو ، تو تحفہ نہ قبول کرنا بھی درست ہے ، لیکن کسی عورت کے غیر محرم سے تحفہ کے قبول کرنے میں بعض اوقات فتنہ کا اندیشہ ہوتا ہے ، اور جن لوگوں کا ذہن بیمار ہوتا ہے وہ اس کی وجہ سے غلط امیدیں قائم کرسکتے ہیں، اس لیے آپ کو اپنے سرپرستوں کی اجازت کے بغیر ایسا کوئی تحفہ ہرگز قبول نہیں کرناچاہئے ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved