• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پرائز بانڈ کا حکم

استفتاء

پرائز بانڈ کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پرائز بانڈز چونکہ سود اور جوئے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا خریدنا اور ان پر انعام حاصل کرنا نا جائز ہے۔

قال الله تعالی: و أحل الله البيع و حرم الربوا. (البقرة: 275)

يايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقي من الربوا. (البقرة: 278)

عن جابر قال لعن رسول الله صلی الله عليه و سلم آكل الربا و مؤكله و كاتبه و شاهديه و قال هم سواء. (صحيح المسلم: 2/ 38)

توجیہ: پرائز بانڈز کے سود اور جوئے پر مشتمل ہونے کی تفصیل اور وضاحت یہ ہے کہ پرائز بانڈ کی حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو اپنے منصوبوں کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ عوام کو پیسے قرض دینے پر آمادہ کرنے کے لیے قرض کی رسید کے طور پر پرائز بانڈز جاری کرتی ہے۔

پرائز بانڈز حقیقت میں سود کے حکم میں ہے۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اگرچہ انفرادی طور پر ہر شخص سے زیادتی کا معاہدہ مشروط نہیں۔ لیکن مجموعہ مقروضین کے ساتھ یہ معاملہ طے ہے کہ ایک قرعہ اندازی ہو گی جن کا قرعہ نکل آئے گا، ان کو انعام ملے گا۔ تو اگرچہ انفرادی طور پر زیادتی مشروط نہیں، لیکن اجتماعی طور پر بانڈز خریدنے والے جو مقروضین ہیں، ان سب سے یہ معاہدہ کیا جاتا ہے کہ ہم قرعہ اندازی کر کے انعام تقسیم کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر حکومت کسی وجہ سے قرعہ اندازی نہ کرے تو ہر بانڈ ہولڈر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے حکومت کو قرعہ اندازی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

اور عملاً ہوتا یہ ہے کہ جس جس نے قرض دے کر رسید یعنی بانڈ لیا ہے، تو بینک ہر شخص کی رقم پر معین طور پر سود لگاتا ہے، پھر ہر شخص کا سود اس کو دینے کے بجائے قرعہ اندازی کر کے ایک شخص کو دیدیا جاتا ہے۔ لہذا سود اس معنیٰ میں تو بظاہر نظر نہیں آتا کہ ہر شخص کو مل رہا ہو، لیکن حساب لگانے میں وہ ہر ایک پر سود لگاتے ہیں، پھر یہ سود سب کو دینے کے بجائے ایک آدمی کو قرعہ اندازی کے ذریعے دیدیے ہیں، لہذا یہ سود ہے جو بنص قرآنی حرام ہے۔

پھر اس سود کو قمار کے طریقے سے تقسیم کیا جاتا ہے، یہ اصلاً قمار نہیں۔ لیکن سود میں قمار ہے، یعنی ہر ایک پر جو سود لگایا گیا  وہ سب بانڈ ہولڈرز کا سود لے کر آ گیا، یا پھر اس سے بھی جاتا رہا۔ لہذا سود میں قمارہے۔

لہذا موہوم انعام کے لالچ میں بانڈ خریدنا جوئے کی صورت ہے، اور شرط طے کر کے قرض پر انعام لینا یا دینا سود ہے، جو کہ حرام ہے۔ اور انعامی بانڈز کی اس سے کم و بیش قیمت پر خرید و فروخت بھی سود اور حرام ہے۔ لہذا انعامی بانڈ خریدنا اور اپنے پاس رکھنا اور اس پر انعام حاصل کرنا نا جائز ہے۔ (ماخوذ از اسلام اور جدید معاشی مسائل، و مسائل بہشتی زیور) ۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved