• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا پرائز بانڈ پر ملنے والی انعامی رقم سے قرضہ ادا کر سکتے ہیں ؟      

استفتاء

ایک شخص کے پاس کچھ بانڈز اس کو ریٹائرمنٹ کی پیمنٹ کے طور پر ملے ۔اب وہ بانڈز نکل آئے ۔جن کی رقم  17 سے 20 ہزار تک ہے ۔کیا اس رقم سے وہ شخص اپنا قرضہ ادا کرسکتا ہے ؟ قرضہ زیادہ ہے لیکن بانڈز پر نکلنے والی رقم سے کچھ نہ کچھ ادا ہو جائے گا ۔کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: بانڈ کیش کروالیا ہے؟

جواب وضاحت: جی ہاں کیش کروالیا ہے۔

مزید وضاحت : ان کے پاس فقط ریٹائرمنٹ سے ملنے والی یہی رقم ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پرائز بانڈز پر  ملنے  والا نفع سود ہے جو کہ حکومت  ادا کرتی ہے ۔سودی رقم کا حکم یہ ہے کہ اگر اصل مالک کو سود واپس کرنا ممکن ہوتو اس کو واپس کرنا ضروری ہے اور اگر اس کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو اس رقم کو صدقہ کرنا واجب ہے ۔

مذکورہ صورت میں سودی رقم حکومت کی طرف سے دی گئی ہے لہذا اگر حکومت کو یہ رقم واپس کرنا ممکن ہو( جس کی ایک ممکنہ صورت یہ ہے کہ ریلوے کے ٹکٹ خرید کر اس کو پھاڑ دیا جائے اور سفر نہ کیا جائے)تو حکومت کو یہ رقم واپس کی جائے اور اگر ممکن نہ ہو تو  اس رقم کو صدقہ کرنا واجب ہے۔

جس صورت میں صدقہ کرنے کا حکم ہے تو چونکہ سائل خود بھی حاجت مند اور مستحق زکوٰۃ ہے اس لیے وہ خود بھی استعمال کرسکتا ہے۔

توجیہ:انعامی بانڈ کی حقیقت یہ ہے کہ بانڈ خریدنے والے حکومت کو قرض دیتے ہیں ، اورحکومت  قرض دینے والوں   کو اس پر نفع دیتی ہے البتہ اس نفع کی ترتیب حکومت یوں بناتی ہے کہ جتنے لوگوں نے قرض دیا ہوتا ہے ان میں قرعہ اندازی کرتی ہے چنانچہ قرعہ اندازی میں جن کا نام نکل آئے  تو انہیں انعام  کے نام پر یہ نفع دیتی ہے جبکہ قرض کی بنیاد  پر جو نفع دیا جائے وہ سود ہوتا ہے   لہذا یہ انعامی رقم سود ہی ہے ۔نیز اس قرعہ اندازی کی وجہ سے اس میں جوئے کا پہلو بھی آجاتا ہے جو کہ ایک مزید خرابی ہے ۔

فتاوٰی عثمانی (176/3) میں ہے:انعامی بانڈ ز پر جو رقم بطور انعام دی جاتی ہے قواعد و ضوابط دیکھنے سے معلوم ہواکہ وہ خالصتاً سود کی رقم ہے اور اسے قمار کے طریقے پر تقسیم کیا جاتا ہے ۔لہذا اس کا لینا جائز نہیں ہے۔اور اگر یہ رقم غلطی سے لے لی ہے تو اس کو نیت ثواب کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہے ۔مسائل  بہشتی زیور( 2/273)میں ہے:بانڈکی حقیقت یہ  ہےکہ حکومت عوام سے قرض لیتی ہے اور بانڈ کے نام سے قرض کی رسید جاری کرتی ہے اور لوگوں کو قرض دینے پر آمادہ کرنے کے لیے حکومت نے انعامی سکیم ساتھ نکالی ہے ۔موہوم انعام کے لالچ میں بانڈ خریدنا جوئے کی صورت ہے اور شرط طے کر کے قرض پر انعام دینا یا لینا یہ سود ہے۔غرض انعامی بانڈ کی اسکیم بالکل حرام ہے اور انعامی بانڈکی اس سے کم و بیش قیمت پر خرید و فروخت بھی سود اور حرام ہے ،لہذا انعامی بانڈ اپنے پاس رکھنا ناجائز ہے۔حاشیہ ابن عابدین (9/635)میں ہے:لو مات الرجل و كسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة و لا يأخذون منه شيئاً و هو أولى بهم و يردونها على أربابها إن عرفوهم و إلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه.الاختيار لتعليل المختار (2/568)میں ہے:والملك الخبيث سبيله التصدق به ولو صرفه في حاجة نفسه جاز ، ثم ان كان غنيا تصدق بمثله وان كان فقيرا لا يتصدق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved