- فتوی نمبر: 23-51
- تاریخ: 29 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان > شرکت عنان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں اہل علم حضرات اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم تین ساتھیوں نے مل کر ایک پراپرٹی خریدی جس کا مقصد خریدتے وقت تجارت ہی تھا اس پراپرٹی کی خریداری ایک کروڑ 58 لاکھ روپے میں ہوئی ہر ساتھی نے اپنے حصے کے 52 لاکھ 67 ہزار روپے ادا کیے،پراپرٹی خریدنے کے بعد ہم نے آپس میں طے کیا کہ اس کے تین حصے کر دیتے ہیں اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح بیچنے میں نفع زیادہ حاصل ہو جاتا ہے نیز اگر کوئی اپنا حصہ رکھنا چاہے تو وہ بھی رکھ سکتا ہے کیونکہ اکھٹی پراپرٹی کی کم قیمت ہوتی ہے جبکہ تھوڑی تھوڑی پراپرٹی کی قیمت زیادہ ہوتی ہے چنانچہ یہ طے کیا کہ آگے فرنٹ پر دو دو مرلہ کے دو پلاٹ ہیں اور پیچھے پچھلی گلی میں ایک پلاٹ تین مرلہ کا ہے اور جو اس کل پراپرٹی کی کل قیمت ایک کروڑ 58 لاکھ ہے اس کی تقسیم اس طرح ہے کہ آگے کے دو پلاٹ 50،50 لاکھ کے ہیں اور پچھلا پلاٹ 58 لاکھ کا ہے کیونکہ فرنٹ پر بڑی گلی لگتی ہے جہاں پراپرٹی کے قیمت زیادہ ہوتی ہے جبکہ چھوٹی گلی میں قیمت کم ہوتی ہے اور فروخت کے لیے یہ طے کیاکہ آگے والے پلاٹ 56،56 لاکھ کے بیچیں گے اور پچھلا پلاٹ 69 لا کھ کا بیچیں گے نیز یہ بھی طے کیا کہ ہم میں سے بھی کوئی پلاٹ رکھنا چاہے تو وہ قیمت فروخت کے اعتبار سے رکھے گا یعنی اس صورت میں بھی اوپر کا نفع تقسیم ہوگا ۔اب معلوم یہ کرنا ہے کہ (1) کیا اس طرح پلاٹ کو تقسیم کرنا اور قیمت طے کرنا جائز ہے ؟ نیز اب ایک ساتھی اپنے حصے میں مکان بنانا چاہتا ہے اور وہ آگے فرنٹ کے حصوں میں سے ایک حصہ لینا چاہتا ہے اس پر باقی دو شریکوں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم لے لو لیکن تم اسے قیمت فروخت جو ہم نے طے کی ہے اس کے حساب سے لو گے اور جو نفع ہوگا وہ تقسیم ہو گا جبکہ اس کا کہنا ہے کہ میں تو خود اس پراپرٹی میں شریک ہوں اور میں پہلے ہی پیسے دے چکا ہوں اس لیے میں اپنا حصہ لینے کے زائد پیسے نہیں دوں گا (2)اب یہ پوچھنا ہے کہ مذکورہ تفصیل کے مطابق کس کا موقف درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔پراپرٹی کو فروخت کرنے کیلئے مذکورہ طریقے سے تقسیم کرنا اور قیمت طے کر نا جائزہے ۔
2۔مذکورہ صورت میں باقی دوشریکو ں کا موقف درست ہے کیوں کہ ابھی تک پراپرٹی کی جو تقسیم ہوئی ہے وہ باہمی تقسیم نہیں بلکہ تقسیم برائے فروخت ہے ۔تاہم تیسرا فریق پراپرٹی کی حقیقی ویلیو (جو کہ طے شدہ قیمت سے کم و بیش ہو سکتی ہے) کے لحاظ سے اپنا حصہ لینے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
بدائع الصنائع (5/465)ميں ہے:فصل وأما الذي يرجع إلى المقسوم له فأنواع منها أن لا يلحقه ضرر في أحد نوعي القسمة دون النوع الآخر وبيان ذلك أن القسمة نوعان قسمة جبر وهي التي يتولاها القاضي وقسمة رضا وهي التي يفعلها الشركاء بالتراضي ۔۔۔۔ومنها الرضا في أحد نوعي القسمة وهو رضا الشركاء فيما يقسمونه بأنفسهم إذا كانوا من أهل الرضا أو رضا من يقوم مقامهم إذا لم يكونوا من أهل الرضا فإن لم يوجد لا يصحبدائع الصنائع (5/470)میں ہے؛“وعلى هذا الاصل يخرج ما إذا اقتسما دارا وفضلا بعضها على بعض بالدراهم أو الدنانير لفضل قيمة البناء والموضع أن القسمة جائزة لأنها وقعت عادلة من حيث المعنى لأن الدار قد يفضل بعضها على بعض بالبناء والموضع فكان ذلك تفضيلا من حيث الصورة تعديلا من حيث المعنى ولو لم يسميا قيمة فضل البناء وقت القسمة جازت القسمة استحسانا وتجب قيمة فضل البناء وإن لم يسمياها في القسمة والقياس أن لا تجوز القسمة لأن هذه قسمة بعض الدار دون بعض لأن العرصة مع البناء بمنزلة شيء واحد وقسمة البناء بالقيمة فإذا وجدت القسمة مجهولة فوقعت القسمة للعرصة دون البناء بقيت وإنها غير جائزة وجه الاستحسان أن قسمة العرصة قد صحت بوقوعها في محلها وهو الملك ولا صحة لها إلا بقسمة البناء وذلك بالقيمة فتجب على صاحب الفضل قيمة فضل البناء وإن لم يسم ضرورة صحة القسمة والله سبحانه وتعالى أعلم “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved