- فتوی نمبر: 32-07
- تاریخ: 22 مارچ 2025
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری > پراویڈنٹ فنڈ وغیرہ کے احکام
استفتاء
میں ایک کمپنی میں جاب کرتا ہوں جہاں پراویڈنٹ فنڈ کی مد میں میری تنخواہ سے کٹوتی ہوتی ہے اور اتنے ہی پیسے میری کمپنی والے بھی جمع کرتے ہیں کہ جب آپ چھوڑ کر جائیں گے تو جمع شدہ رقم آپ کو مل جائے گی۔ اب میری کمپنی میں یہ سلسلہ شروع ہوا ہے کہ وہ یہ جمع شدہ رقم میزان ٹرسٹ بینک میں جمع کروارہے ہیں، میزان بینک اس رقم کو میوچل فنڈ میں انویسٹ کرے گا جس سے ملنے والا نفع اور نقصان دونوں مجھے ملے گا مطلب ملازم کو ملے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ نفع لینا جائز ہے؟ بینک والوں کا یہ کہنا ہے کہ اس میں سود شامل نہیں ہوتا ، بینک یہ پیسے صرف انہی کمپنیوں میں انویسٹ کرتا ہے جو حرام کام میں شامل نہ ہوں۔
تنقیح: (1) کمپنی کی پراویڈنٹ فنڈ کی مد میں تنخواہ سے کٹوتی جبری ہے۔ (2) کمپنی کا اس رقم کو آگے کسی بینک میں انویسٹ کرنا بھی جبری ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: یہ نفع ملازم کو براہ راست ملے گا یا کمپنی کے واسطے سے ملے گا؟
جواب وضاحت: پرافٹ بینک ہی دے گا لیکن کمپنی کے ذریعے چیک کی صورت میں ملے گا۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ چیک میرے نام پربنے گا اور چیک بُک کمپنی کے نام کی ہوتی ہے، کمپنی مجھے چیک دے گی جب بھی میں چھوڑ کر جاؤں گا جس میں میری کٹی ہوئی رقم اور دو منافع (کمپنی کا منافع اور دوسرا میزان بینک کا منافع) شامل ہوں گے۔ یہ رقم پراویڈنٹ فنڈ اکاؤنٹ سے ہی ادا کی جاتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت جبری پراویڈنٹ فنڈ کی ہے لہٰذا کمپنی کی طرف سے کیا جانے والا اضافہ ا ور بینک کی طرف سے ملنے والا نفع دونوں کا لینا آپ کے لیے جائز ہے۔یہ ذمہ داری کمپنی کی ہے کہ وہ اس کو کہاں انویسٹ کرتی ہے۔
جواہر الفقہ (3/277) میں ہے:
جس وقت محکمہ اپنا یہ واجب الادا دین ملازم کو ادا کرتا ہے اور اس میں کچھ رقم اپنی طرف سے مزید ملا کر دیتا ہے ( یہ مزید رقم خواہ وہ ہو جو محکمہ ماہ بماہ ملازم کے حساب میں جمع کرتا ہے اور خواہ وہ ہو جو سالانہ سود کے نام سے اس کے حساب میں جمع کی جاتی ہے ) تو یہ بھی محکمہ کا اپنا یکطرفہ عمل ہے کیونکہ اول تو ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کا محکمہ کو حکم نہیں دیا تھا اور اگر حکم دیا بھی ہو تو اس کا یہ حکم شرعاً معتبر نہیں اس لئے کہ یہ حکم ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں ہے ۔ بنا بریں محکمہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر جو زیادتی اپنی طرف سے دے رہا ہے اس پر شرعی اعتبار سے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی خواہ محکمہ نے اس کو سود کا نام لیکر دیا ہو۔
احکام مذکورہ کی جوعلت اوپر ذکر کی گئی ہے اس کی رو سے جبری اور اختیاری دونوں قسم کے پراویڈنٹ فنڈ کا حکم یکساں معلوم ہوتا ہے تنخواہ محکمہ کے جبر سے کٹوائی گئی ہو یا اپنے اختیار سے ،دونوں صورتوںمیں اس زیادہ رقم کا لینا سود میں داخل نہیں لیکن اختیاری ہونے کی صورت میں تشبہ بالربو بھی ہے اور خطرہ بھی کہ لوگ اس کو سود خوری کا ذریعہ بنالیں اس لیے اختیاری صورت میں اس پر جو رقم بنام سود دی جاتی ہے اس سے اجتناب کیاجائے۔
مزید مفتی شفیع صاحب جواہر الفقہ(3/285) پر لکھتے ہیں:
مسئلہ ۱:جبری پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم کی تنخواہ سے جو رقم ماہ بماہ کاٹی جاتی ہے اور اس پر ہر ماہ جو اضافہ محکمہ اپنی طرف سے کرتا ہے پھر مجموعہ پر جو رقم سالانہ بنام سود جمع کرتا ہے شرعاً ان تینوں رقموں کا حکم ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب رقمیں در حقیقت تنخواہ ہی کا حصہ ہیں اگرچہ سود یا کسی اور نام سے دی جائیں لہٰذا ملازم کو ان کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے ان میں سے کوئی رقم بھی شرعاً سود نہیں۔ البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اگر اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس پر جو رقم محکمہ بنام سود دے گا اس سے اجتناب کیا جائے۔
مسئلہ ۲ :جو حکم مسئلہ نمبر ۱ میں بیان کیا گیا یہ اس وقت ہے جبکہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم ملازم نے اپنی طرف سے کسی شخص یا کمپنی وغیرہ کو تحویل میں نہ دلوائی ہو بلکہ محکمہ نے اپنے تصرف میں رکھی ہو یا اگر کسی شخص یا کمپنی وغیرہ کو دی ہو تو اپنے طور سے اپنی ذمہ داری پر دی ہو اور اگر ملاز م نے اپنی ذمہ داری پر یہ رقم کسی شخص یا بینک یا بیمہ کمپنی یا کسی اور مستقل کمپنی مثلا ملازمین کے نمائندہ پر مشتمل بورڈ وغیرہ کی تحویل میں دی ہو اب اگر بینک یا کمپنی وغیرہ اس رقم پر کچھ سود دیں تو یہ شرعاً بھی سود ہوگا جس کا لینا ملازم کے لیے قطعاً حرا م ہے، فنڈ خواہ جبری ہو یا اختیاری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved