• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پراویڈنٹ فنڈ کےمتعلق سوال

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک مسئلہ پوچھنا تھا آپ سے۔ وہ یہ کہ ہماری ماہانہ تنخواہ سے دس فیصد رقم کاٹی جاتی ہے اور دس فیصد کمپنی بھی اس رقم میں شامل کردیتی ہےجسے ہم پراویڈنٹ فنڈ کہتے ہیں ۔جب ہم کمپنی چھوڑ کر جاتے ہیں تو یہ ساری رقم ہمیں عطا کر دی جاتی ہے ۔اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ جو دس فیصد کمپنی ہمیں ہر مہینے دے دیتی ہےیہ رقم جائز ہے یا نہیں؟ یاد رہے کہ جو کمپنی ہمیں الگ سے دس فیصد دیتی ہے وہ ہماری تنخواہ کے علاوہ ہوتی ہے اور جب ہمیں نوکری ملتی ہے تو لیٹر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ آپ کو ہر ماہ پراویڈنٹ فنڈ ملتا رہے گا ۔برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں

وضاحت مطلوب ہے:

کیا یہ کٹوتی جبری ہے یا اختیاری  ؟

جواب وضاحت:

پہلی دفعہ جو کٹوتی ہوئی اس کی ہم نے اجازت دی تھی اور خود کروائی تھی یعنی اختیاری تھی اوریہ دس فیصد کٹوتی جو کمپنی تنخواہ میں سے ہرمہینے کاٹتی ہے اس کے متعلق کمپنی جاب شروع ہونے سے پہلے ہی لیٹر میں بتا دیتی ہے ،یہ کمپنی کی پالیسی ہے اور اس پالیسی پر دستخط کے ذریعے ہم کمپنی کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ یہ دس فیصد رقم کٹوتی میں شامل کر سکتے ہیں ۔اب کیوں کے دستخط لیئے جاچکے ہیں اس لئے اب یہ کٹوتی بندنہیں کرائی جاسکتی۔ اس طرح یہ کٹوتی دستخط سے پہلے تو اختیاری تھی  مگر اب اختیاری نہیں ہے۔

یاد رہے کہ یہ سالانہ کٹوتی میری تنخواہ کے مطابق چوبیس ہزار کی رقم بنتی ہے اور جب کمپنی اس میں اپنا 10% شامل کرتی ہے تو 48 ہزار کی رقم بن جاتی ہے۔ اب اس 48000 پر بینک سال بعد نفع دیتا ہے، بینک کا یہ نفع بند کروایا جا سکتا ہے جو کہ میں بند کروا چکا ہوں۔ اب مجھے بس جو کمپنی دس فیصد پراویڈنٹ فنڈ دیتی ہے اس کے متعلق رہنمائی چاہیے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کی تنخواہ سے کٹنے والی رقم تو آپ ہی کی ہے اور کمپنی کی طرف سے ساتھ شامل کی جانے والی رقم کی حقیقت بھی اجرت کے حصے کی ہے ۔اس لیے ان دونوں رقموں کا لینا جائز ہے ۔البتہ بنک کی طرف سے لگنے والا اضافہ سود کے شبہ سے خالی نہیں اور اسے آپ بند کرواچکے ہیں لہذا اب مزید کچھ کرنے ضرورت نہیں۔

جواہرالفقہ جلد نمبر 3 صفحہ 277 میں ہے:

لہذا جس وقت محکمہ اپنا یہ واجب الادا دین ملازم کو ادا کرتا ہے اور اس میں کچھ رقم اپنی طرف سے مزید ملا کر دیتا ہے تو یہ بھی محکمہ کا اپنا یک طرفہ عمل ہے ،کیونکہ اول تو ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کا حکم نہیں دیا تھا اور اگر حکم دیا بھی ہو تو اس کا یہ حکم شرعا معتبر نہیں ،اس لئے کہ یہ حکم ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں۔ بنا بریں محکمہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر زیادتی اپنی طرف سے دے رہا ہے اس پر شرعی اعتبار سے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی، خواہ محکمہ نے اسے سود کا نام لے کر دیا ہو ۔

احکام مذکورہ کی جوعلت اوپر ذکر کی گئی ہے اس کی رو سے جبری اور اختیاری دونوں قسم کے پراویڈنٹ فنڈ کا حکم یکساں معلوم ہوتا ہے ۔تنخواہ محکمے کے جبر سے کٹوائی گئی ہویااپنے اختیار سے، دونوں صورتوں میں اس زیادہ رقم کا لینا سود میں داخل نہیں ،لیکن اختیاری صورت میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور یہ خطرہ بھی کہ لوگ اس کو سود خواری کا ذریعہ بنا لیں، اس لئے اختیاری صورت میں اس پر جو رقم بنام سود دی جاتی ہے ،اس سے اجتناب کیا جائے۔

مزید مفتی شفیع صاحب جلد 3 صفحہ 285 پر لکھتے ہیں:

مسئلہ: جبری پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم کی تنخواہ سے جو رقم ماہ بماہ کاٹی جاتی ہے اور اس پر ہرماہ جو اضافہ محکمہ اپنی طرف سے کرتا ہے پھر مجموعہ پر جو رقم سالانہ بنام سود جمع کرتا ہےشرعا تینوں رقموں  کا حکم ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب درحقیقت تنخوہ ہی کا حصہ ہے ،اگرچہ سود یا کسی اور نام سے دی جائیں، لہذا ملازم کو ان کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے، ان میں سے کوئی رقم بھی شرعاسود نہیں، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اگر اپنے اختیار سے کٹوائی جائے اس پر جو رقم محکمہ بنام سود دے گا اس سے اجتناب کیا جائے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved