• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

پراویڈنٹ  فنڈ کی مد میں ملنے والے رقم  کاحکم

استفتاء

سر آرمی میں تنخواہ سے کچھ پیسے کاٹے جاتے ہیں جو آدمی چاہے زیادہ  بھی  کٹواسکتاہے اور کم بھی، جن پر سالانہ انٹرسٹ لگتارہتاہے  جو کہ ریٹائر منٹ پر دیا جاتا ہے  اس کے بارے میں  کچھ  بتائیں  کہ وہ حرام ہے یا نہیں ؟

وضاحت مطلوب : مذکورہ  کٹوتی  پرا ویڈنٹ فنڈ وغیرہ  کی مد میں ہوتی ہے یا اس کا کوئی اور طریقہ کا رہے ؟

جواب وضاحت : جی  ڈیفنس  پراویڈنٹ فنڈ کی مد میں کاٹاجاتاہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  صورت میں جتنی رقم حکومت  کی طرف سے  کاٹی جائے  اس پر جو اضافی رقم حکومت دیتی ہے وہ لیناجائز ہے۔ البتہ جو رقم آپ خودکٹوائیں اس  پر ملنے والے اضافی رقم کو یاتو وصو ل نہ کریں  اوراگر وصول کر لیا تو  بہتر ہے کہ صدقہ کردیں کیونکہ وہ سود کے شبہ سے خالی نہیں اور اگر خود استعمال کریں تو بھی گنجائش ہے  ۔

جواہر الفقہ (3/277)میں ہے :لہذا جس وقت محکمہ اپنا یہ واجب الادا دین ملازم کو ادا کرتا ہے اور اس میں کچھ رقم اپنی طرف سے مزید ملا کر دیتا ہے (یہ مزید رقم خواہ وہ ہو جومحکمہ ماہ  بماہ ملازم کے حساب میں جمع کرتا ہے اور خواہ وہ ہو جو سالانہ  سود کے نام سے اس کے حساب میں جمع کی جاتی ہے) تو یہ بھی محکمہ کا اپنا یکطرفہ عمل ہے کیونکہ اول تو ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کا محکمہ کو حکم نہیں دیا تھا اور اگر حکم دیا بھی ہو تو اس کا یہ حکم شرعاًمعتبر نہیں اس لئے کہ یہ حکم ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں ہے۔بنابریں محکمہ پراویڈنٹ فنڈ کی  رقم پر جو زیادتی اپنی طرف سے دے رہا ہے اس پر شرعی اعتبار سے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی خواہ  حکومت نے اسے سود کا نام لے کر دیا ہو۔

جواہر الفقہ (3/278) میں ہے:’’احکام مذکورہ کی جوعلت اوپر ذکر کی گئی ہے اس کی رو سے جبری اور اختیاری دونوں قسم کے پراویڈنٹ فنڈ کا حکم یکساں معلوم ہوتا ہے تنخواہ محکمہ کے جبر سے کٹوائی گئی ہو یا اپنے اختیار سے ،دونوں صورتوںمیں اس زیادہ رقم کا لینا سود میں داخل نہیں لیکن اختیاری ہونے کی صورت میں تشبہ بالربو بھی ہے اور خطرہ بھی کہ لوگ اس کو سود خوری کا ذریعہ بنالیں اس لیے اختیاری صورت میں اس پر جو رقم بنام سود دی جاتی ہے اس سے اجتناب کیاجائے خواہ محکمہ سے وصول نہ کر ے یا وصول کرکے صدقہ کردے ‘‘فتاوی عثمانی( 278/3)میں ہے:سوال :پراویڈنٹ فنڈ پر جو سود دیا جاتا ہے وہ لینا جائز ہے یا نہیں؟جواب:احتیاط تو اسی میں ہے کہ پراویڈنٹ فنڈ کے طور پر جو رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے اس پر ملنے والی زیادہ رقم کوصدقہ کردیا جائے۔ لیکن شرعی نقطہ نظر سے یہ زیادہ کی رقم سود کے حکم میں نہیں ہے،اس لیے اسے اپنے استعمال میں لانے کی گنجائش ہے۔فتاوی عثمانی(3/308) میں ہے:جواب: پراویڈنٹ فنڈ پر جو زیادہ رقم محکمے کی طرف سے دی جاتی ہے وہ شرعا سود نہیں ہے۔لہذا اس کا لینا اور استعمال میں لانا جائز ہے۔جبری اور اختیاری فنڈ دونوں کا حکم یہی ہے ۔البتہ جو رقم اپنے اختیار سے کٹوائی گئی ہو اس پر ملنے والی زیادتی کواحتیاطا صدقہ کردیں تو بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved