- فتوی نمبر: 8-348
- تاریخ: 03 اپریل 2016
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
جناب مفتی صاحب! گذارش ہے کہ میں شوکت خانم ہسپتال میں ملازم ہوں۔ حکومت کی طرف سے پرائیویٹ اداروں کے لیے لازمی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے وقت اپنے ملازمین کو گریجویٹی دیں یا پراویڈنٹ فنڈ۔
ہمارا ادارہ ہمیں پراویڈنٹ فنڈ دیتا ہے۔ اس کے لیے وہ ہماری تنخواہ سے لازمی طور پر کچھ رقم کاٹتا ہے۔ پھر اتنی رقم ادارہ اپنے پاس سے ملاتا ہے اور اس رقم کو اپنی صوابدید پر کہیں انویسٹ کرتا ہے۔ تو اس رقم میں منافع بھی لگتا ہے۔ اس منافع کا تناسب کم و بیش ہوتا رہتا ہے کبھی 9 فیصد لگتا ہے، کبھی کم و زیادہ۔ لیکن یہ منافع لینا ملازم کے لیے لازمی نہیں ہوتا، اس کی مرضی ہوتی ہے۔ البتہ نہ لینے کی صورت میں ملازم کو مالی سال کے شروع میں بتانا پڑتا ہے۔ اگر وہ شروع میں نہ بتا سکے تو منافع اس کے کھاتہ میں شامل کر دیا جاتا ہے۔
دوران ملازمت اگر کوئی ملازم ادارے سے اپنی کسی ضرورت کے لیے قرضہ مانگے تو ادارہ قرضہ اس طرح دیتا ہے کہ ملازم کی تنخواہ میں سے کٹ کر جتنی رقم جمع ہوئی ہے صرف اس کا 80 فیصد تک بطور قرض ملے گا۔ یعنی نہ تو کٹی ہوئی مکمل تنخواہ ملے گی اور نہ ہی ادارے نے اپنے پاس سے جو رقم جمع کروائی ہے وہ ملے گی۔ قرض کی واپسی لازمی ہوتی ہے، جو کہ تنخواہ میں سے ہر مہینے قسط کی شکل میں کاٹی جاتی ہے۔
قرضہ کی رقم جب تک ملازم کے استعمال میں رہتی ہے ملازم کو اس رقم کا منافع بھی خود دینا پڑتا ہے۔ یعنی سرکاری طور پر 9 فیصد، 10 فیصد جتنی شرح طے ہو اس سے .5% زائد ملازم اپنے پاس سے ادارہ کے پا س جمع کرواتا ہے بشرطیکہ ملازم نے مالی سال کے شروع میں منافع نہ لینے کی درخواست نہ دی ہو۔ اگر ملازم نے منافع نہ لینے کی درخواست دے رکھی ہو، تو پھر ملازم کو قرض کی واپسی کے وقت صرف اتنی رقم ہی واپس کرنی پڑتی ہے جتنی اس نے لی تھی۔ چاہے جتنا بھی عرصہ رقم اس کے استعمال میں رہے۔
مندرجہ بالا صورت حال میں ہمیں بتایا جائے کہ
کیا ہمارے لیے ادارے کی طرف سے ملنے والی زائد رقم اور منافع حلال ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ تنخواہ سے پراویڈنٹ فنڈ کی کٹوتی لازمی ہے، ملازمین کے اختیار میں نہیں ہے۔ پھر اس رقم کی انویسمنٹ بھی ادارہ اپنی ذمہ داری اور صوابدید پر کرتا ہے۔ اس لیے ادارے کی طرف سے ملنے والی زائد رقم اور منافع آپ کے لیے حلال ہیں۔ یہ زائد رقم اور منافع شرعی نقطہ نظر سے سود کے زمرے میں نہیں آتے۔ لہذا اس زائد رقم اور منافع کو حلال سمجھ کر ہی لینا چاہیے۔ نہ کہ سود سمجھ کر۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved