- فتوی نمبر: 8-383
- تاریخ: 23 مارچ 2016
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
میں ایک فوجی ملازم ہوں، حکومت جب ہماری تنخواہ جاری کرتی ہے تو اس میں سے تقریباً دو سوروپے ہر حال میں کاٹ لیتی ہے، پھر جب ہمیں یہ رقم واپس کرتی ہے تو ساتھ میں زائد پیسے بھی دیتی ہے۔ کیا یہ زائد پیسے سود کی مد میں تو نہیں آئیں گے۔
وضاحت مطلوب ہے: کیا یہ پیسے کٹوانے نہ کٹوانے میں ملازم کو اختیار ہوتا ہے؟
جواب: ملازم کو اختیار نہیں ہوتا، حکومت ہر حال میں کاٹتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ تنخواہ سے پراویڈنٹ فنڈ کی کٹوتی لازمی ہے ملازم کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس لیے ادارے کی طرف سے ملنے والی زائد رقم اور منافع آپ کے لیے حلال ہیں، یہ زائد رقم اور منافع شرعی نقطۂ نظر سے سود کے زمرے میں نہیں
آتے۔ لہذا اس زائد رقم اور منافع کو حلال سمجھ کر ہی لینا چاہیے نہ کہ سود سمجھ کر۔
جواہر الفقہ (2/ 275) میں ہے:
’’جبری پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم کی تنخواہ سے جو رقم ماہ بماہ کاٹی جاتی ہے اور اس پر ہر ہر ماہ جو اضافہ محکمہ اپنی طرف سے کرتا ہے پھر مجموعہ پر جو رقم سالانہ بنام سود جمع کرتا ہے شرعاً ان تینوں رقموں کا حکم ایک ہے اور وہ یہ کہ یہ سب رقمیں در حقیقت تنخواہ ہی کا حصہ ہیں، اگرچہ سود یا کسی اور نام سے دی جائیں، لہذا ملازم کو ان کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے، ان میں سے کوئی رقم بھی شرعاً سود نہیں۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved