- فتوی نمبر: 19-10
- تاریخ: 25 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > کھیل و تفریح
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب موجودہ دور میں ایک گیم جو کہ بہت تیزی سے نوجوانوں میں مقبول ہورہی ہے(پب جی، (PUBGکے نام سے مشہور ہے۔تو کیا مفتی صاحب اس گیم کا کھیلنا جائز ہے؟جب کہ ظاہری طور پر اس میں کوئی خرافات نہیں ہے۔تفصیلی جواب درکار ہے۔ جزاک اللہ خیرا
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ گیم کا کھیلنا جائز نہیں کیونکہ اس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہیں بلکہ اس میں کئی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن میں وقت اور صلاحیتوں کا ضیاع سرفہرست ہے۔اس کے علاوہ دیکھا گیا ہے کہ اس کو کھیلنے والے اکثر اس میں بہت زیادہ منہمک ہوجاتے ہیں اور لہو ولعب میں انہماک شرعاً ناپسندیدہ ہے ،نیز اس میں جاندار کی تصاویر بھی ہوتی ہیں۔مزید یہ کہ اس کے کھیلنے والے لوگوں میں اس گیم کو کھیلنے کی وجہ سے اکثر مار دھاڑ کے منفی جذبات بھی پیدا ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں نقصان دہ واقعات پیش آجاتے ہیں ۔
تکملہ فتح الملهم( 4/382) میں ہے:
"فالضابط في هذا عند مشائخناالمستفاد من اصولهم واقوالهم أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، وهذا امر مجمع عليه في الامة متفق عليه بين الائمة … وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة (كما في النرد شير)… كان حراماً أو مكروهاً تحريماً،والغيت تلك المصلحة والغرض لمعارضتها للنهي الماثورحكما بان ضرره اعظم من نفعه وهذا ايضا متفق عليه بين الائمة غير انه لم يثبت النهي عند بعضهم فجوزه و رخص فيه وثبت عند غيره فحرمه و كرهه و ذلك كالشطرنج فان النهي الوارد فيه متكلم فيه من جهةالرواية والنقل فثبت عند الحنفية وعامة الفقهاء فكرهوه ولم يثبت عند ابن السيب وابن المغفل و في رواية عند الشافعي ايضا فاباحوه … وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل به ألهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه هذه خلاصة ما توصل اليه والدي الشيخ المفتي محمد شفيع في احكام القرآن… وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه والله سبحانه اعلم
مسائل بہشتی زیور 2/498
وہ کھیل جن میں دینی یا دنیوی کچھ فائدہ نہ ہو ایسے کھیل بھی ناجائز ہیں مثلاً لڈو، کیرم کھیلنا ویڈیو گیم کھیلنا اور کانچ کی گولیاں کھیلنا وغیرہ کہ ان میں فائدہ کچھ نہیں البتہ وقت کا ضیاع ہے اور کبوتر بازی، جانوروں کو لڑانا اور پتنگ بازی وغیرہ کہ ان میں وقت کے ضیاع کے علاوہ اور بہت سی کراہتیں ہیں ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved