• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قبرستان کی گھاس کو آگ لگانا

  • فتوی نمبر: 29-30
  • تاریخ: 15 اپریل 2023
  • عنوانات:

استفتاء

قبرستان کی صفائی کے لیے گھاس وغیرہ کو آگ لگانا شرعا ً کیسا ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قبرستان کی صفائی کے لیے گھاس وغیرہ کو آگ لگانا درست نہیں  ہے لہذاکوئی اور تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔

بدائع الصنا ئع (1/310)میں ہے :

ولا تتبع الجنازة بنار إلى قبره يعني: الإجمار في قبره لما روي «أن النبي – صلى الله عليه وسلم – خرج في جنازة فرأى امرأة في يدها ‌مجمر فصاح عليها وطردها حتى توارت بالأكام» وروي عن أبي هريرة – رضي الله عنه – أنه قال لا تحملوا معي مجمرا؛ ولأنها آلة العذاب فلا تتبع معه تفاؤلا، قال إبراهيم النخعي: أكره أن يكون آخر زاده من الدنيا نارا؛ ولأن هذا فعل أهل الكتاب فيكره التشبه بهم۔

ہندیہ  (1/62)میں ہے :

ولا يتبع بنار في مجمرة ‌ولا ‌شمع، كذا في البحر الرائق

مرقاۃ المفاتیح  (2/381)میں ہے :

– (وعن عمرو بن العاص قال لابنه) أي: عبد الله. (وهو) أي: عمرو. (في سياق الموت) أي: صدده. قال الطيبي: السياق النزع وأصله السواق. (إذا أنا مت) بضم الميم وكسرها. (فلا تصحبني) أي: لا تترك أن يكون مع جنازتي. (نائحة) أي: صائحة بالبكاء، ونادبة بالنداء ; فإنه يؤذي الميت والحي، وشغل المشيع عن ذكر الموت، وفناء الدنيا، وفكر مقصرهم في أمر العقبى. (ولا نار) أي: للمباهاة والرياء، كما كان ‌عادة ‌الجاهلية، وبقيت إلى الآن في مكة منها بقية. قال ابن حجر: ولأنها من التفاؤل القبيح، وفيه أنها سبب للتفاؤل القبيح۔

حاشیہ طحطاوی  (356)میں ہے:

وبأن الآجر به أثر النار فيكره في القبر للتشاؤم بخلاف الغسل بالماء الحار فإنه يقع في البيت فلا يكره كما لا يكره الإجمار فيه ‌بخلاف ‌القبر۔

امداد الاحکام (1/389) میں ہے:

سوال:   خیال ناقص خاکسار میں لوبان وخوشبو وغیرہ قبرستان میں سلگاناجائز معلوم ہوتا ہے، اکثرلوگ یہاں پراس وجہ سے کہ آگ دوزخ کی ہوتی ہے منع کرتی ہے لہذا جو حکم ہو، زیادہ حد ادب،

الجواب:   عن عمرو بن العاص رضى الله تعالى عنه قال لابنه وهو فی سیاق الموت اذا انا مت فلاتصحبنی نائحة ولانار الحدیث قال فی المرقاة ای للمباهاة والریاء کما کان عادۃ الجاهلية قال ابن حجرولانها من التفاؤل القبیح وفيه انها سبب التفاؤل القبیح لا انها بعضه کما هو ظاهر (ص۳۸۱ج۲)وفی حاشية العلامة الطحطاوی علی المراقی فی علة کراهة الاٰجر فی القبر مانصه وبان الاٰجربه اثرالنارفیکرہ فی القبرللتشاؤم بخلاف الغسل بالماء الحارفانه یقع فی البیت فلایکرہ الاجمارفيه بخلاف القبراھ(ص۳۵۶) اگرقبرستان میں خوشبو، لوبان وغیرہ سلگانا بغرض فخروریاء ہے تب توکراہت ظاہر ہے، اور اگریہ غرض نہیں جب بھی یہ فعل اچھانہیں، کیونکہ اس میں قبر کے پاس آگ جلانا ہے، جوتفاؤل قبیح کا سبب ہے، اور گھر میں گرم پانی سے غسل دینا اور تختہ کواور کفن کودھونی دینابضرورت ہے، نیز وہ گھر میں ہوتا ہے اس میں یہ محذورنہیں، اس لیے اس کو اس پرقیاس نہ کیاجائے، 

فتاوی رحیمیہ (7/124)  میں ہے:

(سوال نمبر ۱۱۴) قبرستان کی صفائی کے لیے آگ لگا کر سوکھی گھاس وغیرہ جلانا کیسا ہے ؟ بینوا توجروا۔

(الجواب) جب قبرستان میں آگ لے کر جانے کی ممانعت ہے تو قبروں کے اوپر کی گھاس وغیرہ جلانے کی اجازت کس طرح ہو سکتی ہے ،صفائی کے لیے دوسری تدبیر عمل میں لائی جائے ۔ فقط واللہ اعلم  بالصواب ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved