- فتوی نمبر: 28-157
- تاریخ: 10 اکتوبر 2022
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
ایک شخص نے اپنی زندگی میں قبرستان کےلئےجگہ وقف کردی اب اس وقف کی گئی جگہ میں درسگاہ بنانا چاہتےہیں واقف فوت ہوچکا ہے ،کیا قبرستان کے لئے وقف کی گئی جگہ میں درسگاہ بنانا جائز ہے ؟
اب سوال یہ ہے کہ قبرستان کے لئےوقف کی گئی جگہ میں ورثاء کی اجازت کے بغیر جائز ہے،یا ورثاء کی اجازت سے درسگاہ بنانا جائز ہے؟اگر جائز ہے تو کیا تمام ورثاء سے اجازت لینا ضروری ہے ؟جواب عنایت فرمائیں۔
وضاحت مطلوب ہے: کیا وہاں قبریں تعمیر کی گئی ہیں یا وہ جگہ متولی کے حوالے کردی گئی ہے یا ابھی تک ویسے ہی واقف کے ورثاء کے پاس ہے؟
جواب وضاحت: جگہ واقف کے ورثاء کے پاس ہے اور ورثاء خود قبرستان کے لیے ہی وقف رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ورثاء کے علاوہ اور کئی لوگ چاہتے ہیں کہ قبرستان کے لیے وقف شدہ جگہ مدرسہ کو دیدی جائے۔ خود ورثاء اس پر راضی نہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں قبر کےلیے وقف کی گئی جگہ میں درسگاہ بنانا جائز نہیں ہےنہ ورثاء کی اجازت سےاور نہ بغیراجازت کے۔
توجیہ:واقف نے اس کو قبرستان کے لیے وقف کیاہے اور وقف کرنے کے بعد واقف کا اس موقوفہ زمین میں ملکیت باقی نہیں رہتی جبکہ واقف کے حکم پر عمل کرنا واجب ہےتو اس وجہ سے مذکورہ صورت میں درسگاہ بنانا جائز نہیں ہے۔
درمختار مع ردالمحتار(546/6)میں ہے:
فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك
(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه.
ہندیہ (2/362)میں ہے:
البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز
حاشیہ ابن عابدین(433/4)میں ہے:
شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved