• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قبضہ میں دیے بغیر زبانی ہبہ۔ مذکورہ جگہ پر قبضہ کے بعد مزید وراثت کا مطالبہ کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد محترم  *** مرحوم 1986 میں انتقال فرما گئے تھے، اس وقت ان کے ورثاء میں ایک بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ انتقال کے وقت ایک گھر تھا، جو تقریباً 5 مرلہ محلہ سعدی پارک میں تھا جو کہ *** صاحب کے نام تھا۔

ناخوشگوار حالات پیدا ہوئے، ان کی بڑی بیٹی ناہید کی شادی کی تھی، 6 ماہ بعد شوہر اور سسرال والوں سے جھگڑا ہوا، اس کے بعد شوہر نے اپنی بیوی کو گھر سے نکال دیا، اور وہ اپنے والد کے گھر آگئیں، تقریباً چار سال وہ اپنے والدین کی طرف رہیں، پھر خاندان کے کچھ افراد نے صلح کروائی، اور کہا کہ اپنا یہ مکان اپنی بیٹی کو دے دیں، یہ بات سسرال والوں کی طرف سے ہوئی تھی، تو صلح کروانے والوں نے یہ بات کہی۔

اب *** مرحوم نے اپنی بیٹی کا گھر بسانے کے لیے تدبیر اختیار کرتے ہوئے صرف زبانی کلامی یہ بات کہی کہ یہ مکان میں نے اپنی بیٹی ناہید کو دے دیا ہے، تاکہ شوہر کچھ اور ڈیمانڈ نہ کرے، اور نہ ہی ان کی بیٹی کو تنگ کرے۔ اس وقت مکان *** مرحوم کے نام تھا، اور انتقال کے وقت بھی انہی کے نام تھا، اور یہ مکان اس جھگڑے سے پہلے کا کرائے پر دیا ہوا تھا، انتقال کے وقت بھی کرائے پر تھا۔ اگر *** مرحوم نے مکان اسی وقت دینا ہوتا تو وہ خالی کروا کر اپنے سامنے قبضہ دے سکتے تھے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

1989ء میں والدہ محترمہ کے کہنے پر گھر کرائے  داروں سے خالی کروایا۔ مزنگ لٹن روڈ پر ایک مکان والدہ محترمہ کا تھا، جس میں ہم سب رہتے  تھے۔ ان دونوں پراپرٹی کی قیمت لگوائی اور سعدی پارک والا مکان بڑی بہن ناہید کے حوالے کر دیا، کہ یہ ان کا جائیداد میں سے حصہ ہے ، جو کہ شرعی طور پر تقسیم سے زیادہ تھا۔

سعدی پارک والے مکان کی قیمت 5 لاکھ تھی اور لٹن روڈ والے والدہ محترمہ کے مکان کی قیمت 30 لاکھ تھی۔ اب حال ہی میں لٹن روڈ والا مکان فروخت کیا ہے جس کی 3 کروڑ 22 لاکھ روپے ملنے ہیں، اور اب موجودہ سعدی پارک والے مکان کی قیمت 70 لاکھ روپے ہے، اب موجودہ قیمت کے لحاظ سے بھی زیادہ حصہ ان کو دے دیا ہے۔

*** مرحوم ایک باشعور تاجر تھے، وہ قانونی کاروائیوں کو بہت اچھی طرح جانتے تھے، انہوں نے بیٹی کو مکان وراثت کے حصہ سے علیحدہ دینا ہوتا تو وہ اپنی زندگی میں رجسٹری کروا دیتے یا اسٹام پیپر پر لکھ کر دیتے تاکہ دوسری بیٹی یا بیٹوں کو کوئی اعتراض نہ ہوتا، *** مرحوم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا، حالانکہ اس وقت ان کے جاننے والوں میں کئی نامور وکلاء اور جج تھے، وہ ان سے گھر بیٹھے یہ کام کروا سکتے تھے۔

بہن ناہید اور بہنوئی کا کہنا ہے کہ ہمیں والدہ والے مکان میں سے الگ سے حصہ دیا جائے، ان کا کہنا ہے  کہ والد صاحب نے یہ مکان ہمیں اپنی زندگی میں دے دیا تھا، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ انہوں نے زبانی بات کی تھی، کوئی قبضہ یا رجسٹری یا اسٹام نہیں دیا۔

آپ حضرات سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ کا ہمیں قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں کہ والدہ کے مکان میں سے ان کا حصہ بنتا ہے کہ نہیں۔

وضاحت مطلوب ہے: 1۔ والدہ والا مکان کس کا تھا، والدہ کا اپنا ذاتی تھا یا والد صاحب کا تھا اور انہوں نے والدہ کے نام کیا ہوا تھا۔

2۔ کیا والدہ نے بہن کو مکان حوالہ کرتے وقت کہا تھا کہ میں تمہیں اپنے ترکہ میں سے بھی حصہ دے رہی ہوں؟

جواب وضاحت: 1۔ یہ مکان والدہ کا ذاتی تھا۔ والد صاحب کے دو مکان تھے، ایک بہن کو دے دیا اور دوسرا والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہم تینوں بیٹوں کو دے کر ان کے نام لگوا دیا تھا۔

2۔ والدہ نے خاص الفاظ تو نہیں کہے، البتہ جس طرح گھروں میں بوڑھی مائیں اپنا فیصلہ سناتی ہیں اسی طرح وہ بھی کہتی تھیں کہ سعدی پارک والا مکان ناہید کو دے دو، ملکہ (دوسری بہن) کو تم مکان بنا دینا، اور اس مکان میں ضرار نیچے رہے اور دونوں بھائی اوپر رہیں۔

ان کے اس فیصلہ کے مطابق ہم نے سعدی پارک والا مکان ناہید کو دیا، ملکہ کو بھی مکان بنا کر دیا۔ اور ان کے اس فیصلہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے والد صاحب اور اپنے ترکہ کو اکٹھا کر کے تقسیم کیا ہے۔

مزید وضاحت: سائل نے بتایا کہ بہن نے اس پر الزام لگایا ہے کہ وہ مکان کی قیمت 3 کروڑ 22 لاکھ غلط بتاتا ہے، اس نے مکان 5 کروڑ میں فروخت کیا ہے اور اس میں سے اپنا حصہ مانگتی ہے۔ سائل کا کہنا ہے کہ اس نے ساری زندگی بہن کا خیال رکھا ہے، چونکہ وہ اس پر جھوٹ وغلط بیانی کا الزام لگا رہی ہے، تو اب وہ چاہتا ہے کہ اسے جو بھی دے صرف شرعی حق دے۔ اس شرعی حق کے لیے فتویٰ طلب کیا گیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔***کا یہ کہنا کہ ’’یہ مکان میں نے اپنی بیٹی ناہید کو دیدیا ہے‘‘، اس کہنے سے اس مکان کا ہبہ تو ہو گیا۔ لیکن یہ ہبہ تام نہیں ہوا، کیونکہ ہبہ کے تام ہونے کے لیے حقیقی یا حکمی قبضہ ضروری ہے۔ اور مذکورہ صورت میں نہ تو حقیقی قبضہ ہوا، کیونکہ مکان کرایہ پر دیا ہوا تھا اور ان سے خالی کرائے بغیر ہبہ کیا۔ اور نہ ہی حکمی قبضہ ہوا، کیونکہ قانونی طور پر بھی مکان بیٹی کے نام نہیں کیا گیا۔ لہذا یہ مکان وراثت میں شامل ہو گا۔

مکان کے ہبہ کے بارے میں مذکورہ جواب آپ کی ذکر کردہ تفصیل پر مبنی ہے۔ اگر بہن اس ذکر کردہ تفصیل کو تسلیم نہیں کرتی تو ہمارا یہ جواب ان پر لاگو نہ ہو گا۔

2۔ 1989 میں والدہ کے کہنے پر مذکورہ مکان یہ کہہ کر بڑی بہن ناہید کے حوالے کر دیا کہ یہ ان کا جائیداد میں سے حصہ ہے۔ آپ کی والدہ کے یہ کہنے سے آپ کی والدہ کے مکان میں آپ کی بہن کا حصہ ختم نہیں ہوا۔ کیونکہ آپ کی والدہ نے یہ بات اپنی زندگی میں کہی تھی جبکہ وارثت کا تعلق وفات کے بعد کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہذا آپ کی بہن ناہید کا بھی والدہ والے مکان میں حصہ ہے۔

3۔ آپ کی ذکر کردہ تفصیل کے مطابق دونوں مکانوں کی موجودہ مالیت 3 کروڑ 92 لاکھ روپے ہے، جس میں سے آپ کی ایک بہن کا حصہ 4900000 روپے بنتا ہے۔ اور اگر والدہ کے مکان کی قیمت کے بارے میں آپ کی بہن ناہید کی بات کو لیں تو پھر آپ کی ایک بہن کا حصہ 7125000 روپے بنتا ہے۔ لہذا اگر آپ نے اپنی بہن ناہید کو 70 لاکھ کی مالیت کے مکان کے ساتھ 125000 روپے مزید دے دیے ہیں تو بہن کی بتائی ہوئی قیمت کے مطابق  بھی آپ ان کا حصہ ادا کر چکے ہیں۔

لیکن یہ سب کچھ آپ کی ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ہے۔ اگر آپ کی بہن اس ذکر کردہ تفصیل کو تسلیم نہیں کرتی تو ہمارا یہ جواب ان پر لاگو نہ ہو گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved