- فتوی نمبر: 18-86
- تاریخ: 21 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہم مل سے چینی خریدتے ہیں اوراسے آگے فروخت کردیتے ہیں ،جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
1۔بیعانہ پرخریدلیتے ہیں فی بوری مثلا300روپے جمع کرادیتے ہیں۔اس بیعانے کےمرحلے کےبعد اسے فروخت کردیا جاتا ہے مثلا،اگلے گاہک کوہم نے 400روپے میں فروخت کردیا اس نے آگے فروخت کیا اگلے نے پھر آگے فروخت کردیا جب اس مال کی ادائیگی (پیمنٹ)کا وقت آتا ہے تو آخری آدمی سب سے پہلے آدمی کے واسطے سے مل میں پیسے جمع کروادیتا ہے اورپہلے آدمی کےنام پرمل D-O(ڈیلیوری آرڈر)جاری کردیتی ہے وہ D-O آخری آدمی لے لیتا ہے اورپھر یہ D-O آگے کسی ڈیلر کو یا کسی دوکاندار کو رفروخت کردیتا ہے۔
2۔دوسراطریقہ فل پیمنٹ پرD-Oلینے کاہے ۔یہ طریقہ کم ہے زیادہ پہلاہی ہے اس میں یہ ہوتا ہے کہ D-Oملنے کےبعد اس چینی کےD-Oکوکسی ڈیلر کے ہاتھ فرخت کردیا جاتاہے جو مل سے جاکرمال وصول کرلیتاہے۔
D-Oپربوریوں کی تعداد اوران کی قیمت درج ہوتی ہے،D-Oکانمبر ہوتا ہے لیکن اس پر بوریوں کاسیریل نمبرنہیں ہوتا۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آخری اورپہلابندہ آپس میں ڈائریکٹ ہوجاتے ہیں اور بیچ کےلوگ فرق برابر کرلیتے ہیں ۔وہ لینے دینے میں شریک نہیں ہوتے۔
3۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بجائے مل کے مارکیٹ میں بیٹھے ڈیلرسے ہم مال خریدلیتے ہیں اورپھر اس D-Oکی آگے ٹریڈنگ ہوتی ہے اورمہینے کےآخر تک کئی ہاتھوں میں D-Oبک جاتا ہے ۔کیا ایسے خریدوفروخت کرنا جائز ہے؟
4۔مذکورہ صورت میں کیا ہم کسی اورکو مال لے کردے سکتے ہیں؟اوربعد میں اس کامال بیچ دیں یا کمیشن پردے سکتےہیں؟یا بغیر کمیشن کے یعنی ہم خود یہ کام نہ کریں دوسروں کو کرواسکتے ہیں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مل سے مذکورہ طریقےسے محض بیعانے پر بوریاں خریدنا ناجائز ہے، کیونکہ عقد کے وقت نہ تو کل قیمت پر قبضہ ہوتا ہے نہ چینی کی بوریاں متعین ہوتی ہیں جس کی وجہ سےبیع الکالی بالکالی ( ادھار کی ادھار کے بدلے بیع) لازم آتی ہے جوکہ شرعا ممنوع ہے۔جب ابتداًایسے خریدنا ناجائز ہےاوروہ بوریاں ملکیت میں ہی داخل نہیں ہوئیں تو ان کو آگے سے آگے فروخت کرنا بطریق اولی ناجائز ہے۔
توجیہ:مذکورہ صورت میں اگر اتنی چینی مل والے کی ملکیت میں نہ ہو جتنی سائل نے خریدی ہےتو اس کا خریدنا ناجائز ہے کیونکہ یہ غیر مملوک کی بیع ہے اور اگر ملکیت میں ہو مگر ایک سے زیادہ جگہ ہو تو بھی ناجائزہے اور اگرایک جگہ پر ہو تو اس صورت میں بیع تو جائز ہے لیکن یہ ایسے ہی ہےجیسے گندم کے ایک صبرۃ(ڈھیر) میں سے ایک قفیز(ایک مخصوص پیمانہ)کی بیع اس صورت میں مبیع دین ہوتی ہے اور جب مبیع دین ہو تو اسی مجلس میں مبیع پر یا کل قیمت پر قبضہ کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ بیع الکالی بالکالی لازم نہ آئے جبکہ مذکورہ صورت میں نہ مبیع پر قبضہ ہوتا ہے اورنہ کل قیمت پر قبضہ نہیں ہوتا لہذا یہ صورت بھی ناجائز ہے۔
بدائع الصنائع (5/ 158)
ولو قال بعتك قفيزا من هذه الصبرة صح وإن كان قفيزا من صبرة مجهولا لكن هذه جهالة لا تفضي إلى المنازعة لأن الصبرة الواحدة متماثلة القفزان بخلاف الشاة من القطيع وثوب من الأربعة لأن بين شاة وشاة تفاوتا فاحشا وكذا بين ثوب وثوب
تحفة الفقهاء (2/ 46)
فأما الجهالة التي لا تفضي إلى المنازعة فلا تمنع الجواز فإنه إذا باع قفيزا من صبرة معينة بدراهم أو باع هذا العدل من الثياب بكذا ولا يعرف عددها أو باع هذه الصبرة بكذا ولا يعلم عدد القفزان جاز لما ذكرنا
حاشية ابن عابدين (4/ 530)
ومنها لو قال بعتك كرا من الحنطة فإن لم يكن كل الكر في ملكه بطل ولو بعضه فيملكه بطل في المعدوم وفسد في الموجود ولو كله في ملكه لكن في موضعين أو من نوعين مختلفين لا يجوز ولو من نوع واحد في موضع واحد جاز وإن لم يضف البيع إلى تلك الحنطة
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 111)
المادة 158 ) الدين ما يثبت في الذمة كمقدار من الدراهم في ذمة رجل ومقدار منها ليس بحاضر والمقدار المعين من الدراهم أو من صبرة الحنطة الحاضرتين قبل الإفراز فكلها من قبيل الدين .
الشرح: والدين يترتب في الذمة بعقد كالشراء والإجارة والحوالة أو استهلاك مال أو استقراض والدين هو مال حكمي سواء كان نقدا أو مالا مثليا غير النقد كالمكيلات والموزونات ( رد المحتار ) . وليس بمال حقيقي ; لأن الدين لا يدخر وأن اعتبار الدين مالا حكميا إنما هو ; لأنه باقترانه بالقبض في الزمن الآتي سيكون قابلا للادخار . أما الذمة فقد سبق تعريفها في المادة الثامنة . هذا وإن أحكام الدين تختلف عن أحكام العين . فالدين قابل للإسقاط بخلاف العين والعين تكون في بيع السلم ثمنا بعكس الدين فإنه لا يكون كذلك . والحاصل أن الدين يقسم إلى ثلاثة أقسام:
(1)هو الذي يتعلق بذمة المدين بوجه من الوجوه (2)هو الذي وإن لم يتعلق بالذمة فهو غير موجود ولا مشار إليه(3)هو الذي وإن كان موجودا ومشارا إليه فهو من المثليات غير المفرزة ككيلة واحدة من الحنطة غير مفرزة في صبرة حنطة . يفهم من هذه التفصيلات كلها أن الدين غير مختص بالشيء الثابت بالذمة وعليه يكون المثال الوارد في المجلة أعم من الممثل
- مذکورہ صورت میں پہلے گاہک کے لئے اگرچہ مل سے خریدنا جائز ہے کیونکہ پوری قیمت عقد کے وقت ادا کی جارہی ہے مگر اس کے لیے قبضہ سے پہلے آگے بیچنا ناجائز ہے، چونکہ چینی مطعومات( کھائی جانے والی چیزوں )میں سے ہے ،اس لئے کسی امام کے نزدیک قبضہ سے پہلے اسے آگے بیچنے کی گنجائش نہیں ہے۔نیز اس طرح کے معاملات میں اصل مقصود خریدنا بیچنا نہیں ہوتا، بلکہ آخر میں ڈیفرنس برابر کرنا ہوتا ہے جو سٹہ کی روح ہے۔
- ڈیلر سے خریدنے میں بھی پہلے مذکورہ خرابیاں پائی جاتی ہیں ،اس لئے وہ بھی ناجائز ہے۔
4. کسی ناجائز معاملے میں کمیشن ایجنٹ بن کر معاملہ کروانا بھی ناجائز ہے
© Copyright 2024, All Rights Reserved