• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قادیانیوں کی فیکٹری میں کام کرنے کا حکم

استفتاء

کیا قادیانیوں کی فیکٹری میں کام کرنا جائز ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: (1)آپ کس فیکٹری میں کیا کام کرتے ہیں ؟(2) آپ کا اس فیکٹری میں کیا عہدہ ہے؟(3) آپ کی تنخواہ کتنی ہے اور گزارا کتنے میں چل جاتا ہے؟(4) کیا فیکٹری کے مالکان خود یا اپنے مبلغوں کے ذریعے ملازمین میں  قادیانیت کی تبلیغ کرتے ہیں؟(5کیا اس کو چلانے والے خود قادیانی ہیں یعنی  جو فیکٹری کے بڑے عہدوں پر فائز ہیں وہ مسلمان  ہیں یا قادیانی جیساکہ G.Mکے عہدے وغیرہ۔

جواب وضاحت: (1)…………. قادیانیوں کی فیکٹری میں کام کرتا ہوں۔(2) میں وہاں ملازم ہوں،وہاں  کپڑا بنتا ہے اور اس  کپڑے کو رنگ وغیرہ  دیا جاتا ہے میں بھی یہی کرتا ہوں۔(3) میری تنخواہ تقریبا 53 ہزار ہے میرے ایک بیٹے کی تنخواہ33 ہزار ہے اور ایک بیٹے کی تنخواہ 25 ہزار ہے ہمارا گزارا تقریبا 80 ہزار سے چلتا ہے نیز میرے لیے اس کو چھوڑنا مشکل ہے کیونکہ وہاں بونس وغیرہ بھی ملتا ہے اس لیے میرے لیے چھوڑنا مشکل ہے۔(4)قادیانیت کی تبلیغ وغیرہ نہیں کرتے اور نہ ہی ہمارے دین کے بارے میں کسی قسم کا نقصان پہنچاتے ہیں۔(5)بڑے عہدوں پر مسلمان ہی ہیں اگرچہ مالک قادیانی ہے اور سارا نفع اسی کو جارہا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عام حالات میں قادیانیوں کے ہاں ملازمت کرنا جائز نہیں البتہ اگر کسی کی کوئی خاص مجبوری ہو تو جب تک اسے کسی دوسری جگہ ملازمت نہ ملے اس وقت تک با مر مجبوری ملازمت کی گنجائش ہے مذکورہ صورت میں ملازم کی مذکورہ فیکٹری میں کام کرنے کی کوئی خاص مجبوری سوال میں ذکر نہیں کی گئی لہذا مذکورہ ملازم کو چاہیے کہ وہ دوسری جگہ نوکری تلاش کرے اور جب تک دوسری جگہ کوئی جائز اور حلال روزی کا انتظام نہ ہو اس وقت تک اس جگہ بادلِ نخواستہ نوکری کرتا رہے۔

نوٹ: بونس وغیرہ کا ملنا ایسی مجبوری نہیں کہ جس کی وجہ سے قادیانیوں کی فیکٹری میں ملازمت کی گنجائش ہوو۔

عمدۃ القاری (12/94) میں ہے:

هذا باب يذكر فيه هل يؤجر الرجل المسلم نفسه من رجل مشرك في دار الحرب؟ ولم يذكر جواب الاستفهام لان حديث الباب يتضمن اجارة خباب نفسه وهو مسلم اذ ذلك في عمله للعاص بن وائل وهو مشرك وكان ذلك بمكة وكانت مكة اذ ذلك دار الحرب واطلع النبي صلى الله عليه وسلم على ذلك فاقره ولكنه يحتمل ذلك يكون ذلك لاجل الضرورة وقال المهلب كره اهل العلم ذلك الا للضرورة بشرطين احدهما ان يكون عمله فيما يحل للمسلم والآخر ان لا يعينه على ما هو ضرر على المسلمين وقال ابن منير استقرت المذاهب على ان الصناع في حوانيتهم يجوز لهم العمل لاهل الذمة ولا يعتد ذلك من الذلة بخلاف ان يخدمه في منزله وبطريق التبعيه له.

امداد المفتین (1/850) میں ہے:

سوال :مرزائیوں کے دونوں فریق قادیانی و لاہوری بالیقین مرتد خارج عن الاسلام ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو مرتد کا کیا حکم ہے؟ مرتدین کے ساتھ اختلاط و برتاؤ کرنا عوام کو ان کی باتیں سننا جلسوں میں شریک ہونا ان سے مناکحت کرنا، ان کی شادی و غمی میں شریک ہونا، ان کے ساتھ کھانا پینا، تجارتی تعلقات قائم رکھنا ،ان کو ملازم رکھنا یہ امور جائز ہیں یا نہیں؟

جواب :مرزا غلام احمد کا کافر و مرتد ہونا ان کے اقوال و کلمات غیر محصورہ کا غیر محتمل للتاویل ہونا اظہر من الشمس ہو چکا ہے اسی لیے جمہور علماء امت ان کی تکفیرپر متفق ہیں اس کی مفصل تحقیق کرنا ہو تو مستقل رسائل مثل اشد العذاب مصنف مولانا مرتضی حسن صاحب اور القول الصحیح فی مكائد المسیح مصنف مولانا محمد سہول صاحب اور مطبوعہ فتاوی علمائ ہند دربارہ تکفیر قادیانی جس میں ہر جگہ وہ صوبہ کے علماء کے سیکڑوں دستخط تصدیق ہیں ملاحظہ فرمائے جائیں پھر مرزائیوں کے دونوں فرقے قادیانی اور لاہوری اتنی بات پر متفق ہیں کہ وہ اعلی درجہ کا مسلمان بلکہ مجدد محدث اور مسیح موعود تھے وہ ظاہر ہے کہ کسی کافر مرتد کے متعلق بعد اس کے عقائد معلوم ہو جانے کے ایسا عقیدہ رکھنا خود کفر و ارتداد ہے اس لیے بلاشبہ دونوں فرقے کافر و مرتد ہیں اور اب تو لاہوریوں نے جو تحریف قرآن اور انکار ضروریات دین کا خاص طور پر بیڑا اٹھایا ہے اس کے سبب اب وہ اپنے کفر و ارتداد میں مرزا صاحب کے تابع ہونے سے مستغنی ہو کر خود بالذات ارتداد کے علمدار ہیں اس لیے دونوں فریق سے عام مسلمانوں کا اختلاط اور ان کے باتیں سننا جلسوں میں ان کو شریک کرنا یا خود ان کے جلسوں میں شریک ہونا شادی و غمی اور کھانے پینے میں ان کو شریک کرنا سخت گناہ ہے اور مناکحت قطعا حرام ہے اور جو نکاح پڑھ بھی دیا جائے تو نکاح منعقد نہیں ہوتا بلکہ اگر بعد انعقاد نکاح مرزائی ہو جائے تو نکاح فورا منسوخ ہو جاتا ہے البتہ تجارتی تعلقات اور ملازمت میں رہنا یا ملازم رکھنا بعض صورتوں میں جائز ہے بعض میں وہ بھی ناجائز ہے اس لیے بلا ضرورت شدیدہ اس سے بھی احتراز ضروری ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved