• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قادینوں کو ملازم رکھنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کاروباری اداروں میں ملازمین کی تقرری کے وقت ان سے مذہب کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے تاکہ غیر مسلم ملازمین سے بچاجاسکے ۔غیر مسلم ملازمین میں جہاں عیسائی سکھ اور ہندووں کی CV’Sموصول ہوتی ہیں وہیں شیعہ اور قادیانیوں کی CV:Sبھی موصول ہوتی ہیں۔

۱۔ اب سوال یہ ہے کہ غیر مسلموں کو ملازم رکھنا کیسا ہے ؟سوال میں ذکر کردہ غیر مسلموں کے ساتھ خریدوفروخت کرنے کا کیا حکم ہے ؟ کیونکہ بعض ایسی اشیاء کی خریداری کی ضرورت ہوتی ہے جن میں قادیانیوں کے ساتھ معاملات کرنا ناگزیر ہوتا ہے جیسے پاکستان میں مرسڈیز موٹر کار کی ایک ڈیلر ہے اور وہ بھی قادیانی ہے ان کے علاوہ یہ گاڑیاں پاکستان میں کہیں اور دستیاب نہیں ہوتی نئی مرسڈیز گاڑیاں خریدتے وقت قادیانیوں سے معاملات کرنے پڑتے ہیں۔

۲۔ ان حالات میں قادنیوں کے ساتھ معاملات کرنے کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قادیانیوں کے علاوہعام کافروں کو ملازم رکھنا یا ان کوکے ساتھ خریدوفروخت کرناعام حالات میں جائز ہیں ۔البتہ قادیانیوں کا حکم عام کافروں کا سا نہیں ہے ،کیونکہ قادیانی بھی اگر چہ کافر ہیں لیکن یہ سادہ کافر نہیں بلکہ یہ مرتد اور زندیق ہیں (چنانچہ جو لوگ پہلے صحیح مسلمان تھے اور پھر قادیانی ہوئے وہ مرتدہیں اور جو شروع سے قادیانی ہیں وو زندیق ہیں ) زندیق وہ شخص ہے جو اپنے کافر ہونے کا اقرار نہیں کرتا بلکہ اپنے کفر یہ عقیدے کے اسلام ہونے پر اصرار کرتا ہے ۔ قادیانی چاہے انہوں نے صحیح مسلمان ہونے کے بعد کفر اختیار کیا ہو یا شروع سے قادیانی ہوں دونوں زندیق ہیںنیز قادیانی محض ایسے غیر مسلم نہیں ہیں جو اپنے مذہب والوں تک محدود رہتے ہوںبلکہ یہ سادہ لوح مسلمانوں سے معاشرتی تعلقات اور دوستی وغیرہ کے لبادے میں انہیں مرتد بنانے کے مشن پر بھی کا ربند ہیں اور اس کے لیے فکر مند رہتے ہیں اس لیے قادیانیوں کے ساتھ معاملات اور لین دین کا حکم عام کفار کے مقابلے میں بھی بہت محدود اور تنگ ہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

۱۔ معاشرتی تعلقات ہر سطح پر ممنوع ہیں معاشرتی تعلقات سے مراد پڑوس کے حقوق ،خوشی غمی شادی بیاہ اور جنازہ وتعزیت میں شرکت ۔نیز دوستی اور احترام کا تعلق بھی ممنوع ہے ۔کیونکہ ان تعلقات کی وجہ سے عام آدمی بآسانی ان کے جال میں آسکتا ہے۔

۲۔ معاشی تعلقات میں سے وہ تعلقات جن میں فریقین کا آپس میں مستقل تعلق وجود میں آتا ہے اور وہ تعلق ایک دوسرے سے متاثر ہونے کا ذریعہ بنتا ہے وہ بھی ممنوع ہے جیسے پارٹنر شپ کرنا ،اکٹھے کاروبار کرنا ،یا قادیانیوں کے ہاں ملازمت اختیارکرنا وغیرہ

۳۔            باقی رہے وہ مالی معاملات جن میں اس قسم کا اندیشہ نہیں ہوتا جیسے وقتی ضرورت کے وقت کسی سے کوئی چیز خریدنا یا بیچ دیناجبکہ اس چیز کی خرید وفروخت کسی اور جگہ سے ممکن نہ ہو یا بہت مشکل ہو یا قادیانی کواپنے ہاں کسی غیر اہم عہد ے پر ملازم رکھناایسے معاملات کی فی نفسہ گنجائش ہے تاہم پھر بھی احتیاط کریں تو اچھا ہے۔

نوٹ:         اپنے ہاں ملازم رکھنے میں بھی یہ ملحوظ رکھنا ضروری ہو گا کہ وہ دیگر ملازمین کو گمراہ کرنے کا ذریعہ نہ بنے۔

امداد المفتین( 850/1)میں ہے  :

’’ان (قادیانیوں کے احمد اور لاہوری) دونوں فریقوں سے عام مسلمانوں کا اختلاط اور ان کی باتیں سننا ،جلسوں میں ان کو شریک کرنا سخت گناہ ہے اور مناکحت قطعا حرام ہے اور نکاح پڑھ بھی دیا جائے تو نکاح منعقد نہیں ہوتا بلکہ اگر بعد انعقاد نکاح مرزائی ہو جائے تو نکاح  فورا منسوخ ہوجاتا ہے ۔ البتہ تجارتی تعلقات اور ملازمت میںرہنا یا اپنا ملازم رکھنابعض صورتوں میں جائز ہے بعض میں وہ بھی ناجائز ہے ۔اس لیے بلاضرورت شدیدہ اس سے بھی احتراز ضروری ہے۔‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved